اس سال کے آغازمیں جب عرب دنیا میں آمر حکمرانوں کے خلاف تحریکیں شروع ہوئی تھیں جنھیں ’عرب بہا ر‘کا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت شاید کسی کے بھی گمان میں یہ بات نہ ہو کہ امریکہ کے دارلحکومت واشنگٹن میں ایک دن ایسے بینرز دیکھنے کو ملیں گے جن پر لکھا ہو گا ’ آوٴ امریکی ،امریکی بہار کے لیے جدوجہد کریں‘ ـ
اِن مظاہروں میں حصہ لینے والے امریکیوں کا کہنا تھا کہ، وہ آزاد نہیں ہیں، بلکہ امریکہ کی نناوے فیصد عوام اس ایک فیصد امیر طبقے کی غلام ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ عام آدمی اُن سے یہ طاقت چھین لے۔
کیون زلیس اس مظاہرے کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ’ ہم یہاں صرف ایک مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ بڑی بڑی کاپوریشنوں کی حکمرانی ختم کی جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک کی حکمرانی عوام کے ہاتھ میں ہو نہ کے سرمایہ داروں کے ‘ـ
یہ تحریک چند ہفتےقبل امریکہ کے سب سے بڑے کاروباری مرکز نیویارک میں شروع ہوئی جہاں کے علاقے وال ا سٹریٹ میں بڑی بڑی کارپوریشنوں کے دفاتر اور بینکوں کے ہیڈ آفس قائم ہیں ـ اِن مظاہروں میں حصہ لینے والے افراد اُن بینکوں اور کارپوریشنوں کو امریکہ میں آنے والے حالیہ بحران کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، اُن کا کہنا ہےکہ ’یہ بحران پیدا کرنے والوں کو حکومت نے نوازا جس کے منفی اثرات عام لوگوں پر پڑے، جِن کی نوکریاں آئے دن ختم ہو رہی ہیں اور گھر چھن رہے ہیں ‘۔
یہ مہم وال ا سٹریٹ پر چند گروپوں کے دھرنے سے شروع ہوئی ، جنھیں اُنھوں نے ’ آکوپیشن‘ یعنی قبضے یا دھرنے کا نام دیا ـ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کہ مطالبات نہ مانے گئے وہ وال اسٹریٹ میں ہی ڈیرے ڈالے رکھیں گے ـ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مظاہرے ملک کے کئی شہروں تک پھیل گئے، اورجمعرات کے دن دارالحکومت واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب چند ہزار لوگ فریڈم اسکوائرمیں اکٹھے ہوئے ـ
اس مظاہرے میں حصہ لینے والے افراد کا کہنا تھا کہ وہ دارلحکومت میں ہی براجمان رہیں گے اور اگر سڑکوں پر سونا پڑا تو سوئیں گے لیکن اپنے مطالبات منوا کر رہیں گے ـ
جمعرات یعنی چھ اکتوبر کو افغانستان پر امریکی حملے کے دس سال بھی مکمل ہوئے اس لیے اس مظاہرے میں حصہ لینے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو افغانستان اور عراق جنگوں کے مخالف ہیں ـ
چوک میں سب سے پہلے ایک جلوس کی صورت میں وہ سابق امریکی فوجی داخل ہو ئے جنھوں نے ویتنام ، عراق اور افغانستا ن کی جنگوں میں حصہ لیا ہے لیکن وہ ان جنگوں کے خلاف ہیں اور ان کا مطالبہ تھا کہ یہ ختم کی جائیں۔
انھیں میں بین کیسلر بھی شامل تھے جو سولہ سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے اور انھیں افغانستان بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ آٹھ ماہ تک پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر متعین رہے ـ اس جنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بے جا تشدد ہے اور اس کا کوئ مقصد نہیں ہے ـ اس سے بس لوگوں ہلاک ہو رہے ہیں اور زندگیاں برباد ہو رہی ہیں ـ اس نے ہمارے ملک اور افغانستان دونوں کو برباد کر دیا ہے ـ اس لیے اسے ختم ہونا چاہیے ـ
مظاہرے کی ایک اور منتظم مارگریٹ فلاور نے کہا کہ افغانستان پر حملے کی دسویں برسی کے ساتھ ساتھ یہ وہ ہفتہ بھی ہے جب امریکہ کا قومی بجٹ پیش کیا جانا ہے ـ
جلسہ گاہ میں ایسے پوسٹر بھی لگے ہوئے نظر آئے جن پر لکھا تھا کہ پاکستان میں ڈرون حملے بند کیے جائیں ـ سابق فوجی بین کیسلر کا کہنا تھا کہ یہ انتہایی بری چیز ہے ـ “میرے خیال میں ڈرون اور دوسرے فضائی حملوں کو ختم کر دینا چاہیے ویسے تو زیادہ تر فوج کو ہی ختم کر دینا چاہیے لیکن میرے خیال میں ڈرون حملے ان میں سے سب سے برا عمل ہے جو بطور ملک ہم نے کیے ہیں ـ”
عرب تحریکوں کی طرح بھی یہ تحریک بھی عوام نے شروع کی ہے یعنی اس کا کوئی ایک رہنما نہیں ہے ـ