جمعے کے روز خبر آئی کہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح میں معمولی سی کمی ہوئی ہے اور اب یہ نو اعشاریہ ایک فیصد ہو گئی ہے۔ لیکن اس کسی قدر اچھی خبر سے ایک روز پہلے اسٹاک مارکیٹ میں حصص کی قیمتوں میں زبردست کمی ہو ئی تھی ۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام لوگ معیشت کے بارے میں پریشان ہیں، اور اب جب کہ 2012 کے صدارتی انتخاب میں پندرہ مہینے باقی رہ گئے ہیں، انہیں ملک کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
صدر اوباما نے بے روزگاری کی شرح میں تازہ ترین معمولی سی کمی کا خیر مقدم کیا لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ 2008 کی کساد بازاری سے لے کر اب تک جو 80 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، ان کی بحالی میں ابھی کافی وقت لگے گا۔’’لیکن میں امریکہ کے لوگوں سے اور دنیا میں اپنے شراکت داروں سے جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم اس مشکل پر قابو پا لیں گے۔ حالات بہتر ہو جائیں گے اور ہم ضرور اس منزل پر ایک ساتھ پہنچیں گے۔‘‘
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اگلے سال کے صدارتی انتخاب میں معیشت کا رول بہت اہم ہوگا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بے روزگاری کی اونچی شرح، کمزور اقتصادی ترقی اور اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ پر صدر اور ان کے حامیوں کو تشویش ہونی چاہیئے۔
جان فورٹیئر واشنگٹن کے بائی پارٹیزن پالیسی سنٹر میں امریکہ کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’معیشت کے بہتر ہونے کے لیے اب بھی کچھ امید اور کچھ وقت باقی ہے، لیکن اگر بے روزگاری کی سطح یہی رہی، اور مستقبل کے امکانات روشن نہ ہوئے، تو پھر ان کے مخالف امید وار چاہے کوئی بھی ہوں، صدر بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے۔‘‘
حالیہ دنوں میں صدر کی مقبولیت کی شرح میں کمی آئی ہے اور اس سے ان درجن بھر ریپبلیکنز کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو اگلے سال کے صدارتی انتخاب کے لیے اپنی پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی تیاری کر رہےہیں۔
صدارتی انتخابات عام طور سے موجودہ صدرکی کارکردگی کے بارے میں ریفرنڈم ہوتےہیں۔ ریپبلیکن سینیٹرلامار الیگزینڈر کہتے ہیں کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اگلے سال کے انتخا ب میں ان کی پارٹی صدر کا مقابلہ کس طرح کرے گی۔’’جو مسائل انہیں ورثے میں ملے تھے ہم ان کے لیئے صدر کو الزام نہیں دیتے۔ لیکن معیشت کو اور زیادہ خراب کرنے کے لیے ہم انہیں ضرور ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔‘‘
صدر کو امید ہے کہ حال ہی میں سرکاری اخراجات میں کمی کے عوض قرض کی حد بڑھانے کا جو سمجھوتہ ہوا ہے ، اس سے انہیں سیاسی طور پر فائدہ ہو گا۔ خاص طور سے اعتدال پسند ووٹرز جو بجٹ کے خسارے میں کمی کے لیے دونوں پارٹیوں کے درمیان مصالحت کے خواہشمند تھے، صدر کے حامی ہو جائیں گے۔
لیکن بہت سے ڈیموکریٹس کو اس مصالحت پر مایوسی ہوئی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ جب صدر مالدار امریکیوں پر ٹیکس میں اضافے کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے، تو انھوں نے بہت زیادہ رعایتیں دے دیں۔
اخبار نیو یارک ڈیلی نیوز کے واشنگٹن بیورو کے چیف ٹام ڈی فرینک نے وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں کہا’’اب جب کہ صدارتی انتخاب میں 15 مہینے سے بھی کم رہ گئے ہیں، ریپبلیکنز نے طے کر لیا ہے کہ وہ صدر اوباما کو کسی معاملے میں برتری حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ قرض کے بحران پر جو بحث ہوئی اس سے ان کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے کیوں کہ وہ خوب اپنی طاقت کا استعمال کر سکتے تھے۔‘‘
نیویارک ٹائمز اور سی بی ایس کے تازہ ترین جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرض کی حد کے مقابلے میں، دونوں میں کسی بھی پارٹی کو سیاسی طور پر فائدہ نہیں ہوا۔ تجزیہ کار روڈز کک کہتے ہیں کہ اس میں قدامت پسند ٹی پارٹی کی عوامی تحریک بھی شامل ہے جس کی مدد سے گذشتہ سال درجنوں ریپبلیکن ارکانِ کانگریس منتخب ہوئے تھے ۔’’میرا خیال ہے کہ ریپبلیکن پارٹی ان میں سے بعض معاملات میں اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگا سکتی ہے ۔ مجھے یقین نہیں کہ ٹی پارٹی کی حمایت واقعی اتنی زیادہ ہے جتنی اس پارٹی کے حامی سمجھتے ہیں ۔ یہ امکان موجود ہے کہ 2012 اوباما اور ڈیموکریٹس کے لیے اچھا سال ثابت ہو۔‘‘
ریپبلیکن امیدواروں میں صدارت کے لیے نامزدگی کے مقابلے میں اگلے ہفتے تیزی آ جائے گی جب ریاست آیووا میں جہاں ابتدائی مقابلے ہوتے ہیں، بہت سے امیدوار ایک آزمائشی ووٹ میں مقابلہ کریں گے جسے straw poll کہا جاتا ہے ۔ اس مقابلے سے ریپبلیکن ووٹرز ، خاص طور سے سماجی قدامت پسندوں میں، امیدواروں کی حمایت کا اندازہ ہوتا ہے ۔