رسائی کے لنکس

امریکہ: دوسرا معاشی بحران آیا تو صورتحال بد تر ہوجائے گی، ماہرین معاشیات


نیویارک اسٹاک ایکس چینج
نیویارک اسٹاک ایکس چینج

دوسرے بحران کی صورت میں عام امریکیوں کو سنہ2007-2008کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ پہلے کےمقابلے میں ملازمتوں، آمدنی اور صنعتی پیداوار کی حالت اب زیادہ کمزور ہے۔ گزشتہ بحران میں خصوصی طور پر متاثر ہونے والا شعبہ رہائش اور تعمیرات کا ہے

چند ماہر معاشیات کو خدشہ ہے کہ امریکہ میں دوسرا مالی بحران آنے والا ہے۔ انہوں نےخبردار کیا ہے کہ دوسرے بحران کی صورت میں عام امریکیوں کو سنہ2007-2008کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ پہلے کے مقابلے میں ملازمتوں، آمدنی اور صنعتی پیداوارکی حالت اب زیادہ کمزور ہے۔ گزشتہ بحران میں خصوصی طور پر متاثر ہونے والا شعبہ رہائش اور تعمیرات کا ہے۔

مارک ہڈسن واشنگٹن ڈی سی میں گھروں کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ ڈی سی وہ علاقہ ہے جہاں رہائش اور تعمیرات کا شعبہ سب سے کم متاثر ہوا ہے۔ مارک کا کہنا ہے کہ سنہ2005سے لیکر سنہ 2011تک گھروں کی فروخت میں چالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے اوراس سے ملک بھر میں معیشت کا ہر پہلو متاثر ہوا ہے۔ تاہم ڈی سی سے قریب ہونے کی بنا پر ہم ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کم متاثر ہوئے ہیں۔

واشنگٹن کے نواح میں مارک ایک گھر بیچنا چاہ رہے ہیں۔ مگر وہ اسے گزرے سالوں کی نسبت کم قیمت پر بیچیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگروہ یہ گھر چند سال پہلے فروخت کرتے تو خریدار یک مشت دس لاکھ ڈالر ادا کر دیتے۔ مگر اب وہ اس کی لاکھ ڈیڑھ لاکھ ڈالر کم قیمت ادا کریں گے۔ وہ یہ بچت اپنی ریٹائرمنٹ یا پھر کوئی دوسرا گھر خریدنے اور یا پھر اپنے بچوں پرخرچ کریں گے۔ سو اس سے یقیناً ان کی ذاتی پونجی متاثر ہو رہی ہے۔

گھروں کی خرید و فروخت اور تعمیرات سے معاشی بحالی میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم ایک ماہر معاشیات کیرن ڈائینن کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ شاید ایسا نہ ہو۔

کیرن کے نزدیک اصل مسئلہ طلب میں کمی کا ہے۔ لوگوں کی آمدنیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اورجب اِنہیں اپنے گھروں کی قیمتیں گرتی ہوئی نظر آتی ہیں تو وہ نئے گھروں پر سرمایا کاری نہیں کرنا چاہتے۔ جب تک طلب میں اضافہ نہیں ہو گا تعمیراتی شعبے سے معاشی بحالی میں مدد نہیں مل سکے گی۔

تاہم بہت سے ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ اَن دیکھے خدشے کی وجہ سے صارفین تذبذب کا شکار ہیں۔ اس خدشے نے دنیا بھر میں معاشی منڈیوں کو تہ و بالا کیا ہے ۔ اور یہ سب امریکی محکمہ ٴ خزانہ کی قرضہ حاصل اور واپس کرنے کی ساکھ میں کمی اورملک کے قرضہ حاصل کرنے کی حد میں اضافے پر ہونے والی طویل عرصے سے جاری سیاسی دھڑے بندی کا شکار بحث کا شاخسانہ ہے۔

کیرن کہتی ہیں کہ منفی سوچ بذاتِ خود مایوس کن نتائج پیدا کرتی ہے۔ اگر کسی روز صارف مستقبل کے بارے میں خدشات کا شکار ہو کر پیسے خرچ کرنا بند کر دے تو اس سے پیداواری شعبے میں طلب کم ہو جائے گی جس سے نوکریاں متاثر ہونگی اور آمدنی میں کمی ہوگی، اس کے نتیجے میں صارف میں اخراجات کرنے کی رغبت مزید کم ہو جائے گی۔

مارک ہڈسن کہتے ہیں کہ چونکہ انکی آمدنی میں پچاس فیصد کمی ہوئی ہے اسلئے یقیناً انکے اخراجات میں بھی کمی ہوئی ہے۔ اور وہ مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔

XS
SM
MD
LG