کیا امریکہ تنزلی کی طرف جا رہا ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو اخبار شکاگو ٹریبیون کے ایک ادارئے میں اٹھایا گیا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ آجکل امریکہ میں یہ سوال اکثر پوچھا جا رہا ہے اور امریکہ بھر میں سڑکوں پر ہونےوالے مظاہرے ، واشنگٹن میں جاری تعطل اور ملک کی معیشت کے مسائل کے پیش نظر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ تی ہے کہ یہ سوال کیوں پوچھا جا رہاہے ۔ اخبار ، کیپیٹل ہل کے ایک اخبار، دی ہل اور رائے عامہ کے جائزوں سے متعلق ایک غیر جانبدار ادارے کے ایک حالیہ جائزے کے حوالے سے لکھتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ان کی اگلی نسل موجودہ نسل سےزیادہ خراب حالات میں زندگی گزارے گی اور آج کا امریکی بچہ اپنے والدین سے بہتر زندگی نہیں گزارے گا ۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگر امریکہ کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے موجودہ حالات کی وجوہات اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ امریکہ کا اصل مسئلہ کیا ہے تو اخبار کے نزدیک اس کا اصل مسئلہ اس کی حکومت اور نجی سیکٹر کی طرف سے تعلیم اور صنعت پر سرمایہ کاری میں ایک عرصے سے کی جانے والی مسلسل کمی دکھائی دیتی ہے جس کے نتیجے میں 1970 کے عشرے کے وسط سے ہماری فیکٹریاں اور اسیمبلی پلانٹس اب تقریباًٍ بیرون ملک کارکنوں کے پاس جا چکے ہیں جب کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت گہرا ہو گیا ہے ، اور ا ن نوجوانوں کو جو اس خلیج کو پاٹنا چاہتے ہیں ، مسائل کا سامنا ہے ۔
تاہم اخبار فیڈرل ریزرو کی ویب سائٹ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ تیس سال میں امریکہ کے متوسط طبقے کی آمدنی میں اگرچہ سست شرح سے ہی سہی لیکن اضافہ ہوا ہے ۔ اس لئے اخبار خیال ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کا اصل مسئلہ امیر اور غریب کی آمدنی میں فرق نہیں بلکہ مواقعوں کی فراہمی میں فرق ہے ۔ اور اخبار لکھتا ہے امریکہ کے اس اصل مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ حکومت یا پرائیویٹ سیکٹر کو برا بھلا کہا جائے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ دونوں کو مل کر کام کرنے پر آمادہ کیا جائے کیوں کہ اخبار لکھتا ہے کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر ہمیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ کیا امریکہ تنزلی کی طرف جا رہا ہے ؟ اس لیے کہ ہم جان لیں گے کہ امریکہ واقعی تنزلی کی طرف جا رہا ہے ۔
اور امریکہ کی معیشت کے مسائل نے جہاں اُس کی صنعت ، تعلیم اور متعدد شعبوں کو متاثر کیا ہے وہاں خاص طور پر امریکی نوجوانوں کے رہن سہن ، کے مشاغل، شوق کے اظہار اورتفریح کے انداز کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے ۔ وہ نوجوان جو اپنی ذات کو نمایاں کرنے اور اپنی دولت و ثروت اور ترنگ کے اظہار کے لیے مہنگے مہنگے موٹر سائکل یا اسپورٹس موٹر سائیکل خرید کر اُنھیں برق رفتاری کے ساتھ سڑکوں پر دوڑاتے پھرتے تھے، اب یہ مہنگا شوق یا مشغلہ اپنانے کی استطاعت نہیں رکھ پا رہے۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے اِسی موضوع پر اپنا ایک اداریہ تحریر کرتے ہوئے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا امریکہ میں موٹر سائیکل کا دور ختم ہورہا ہے؟
اخبار لکھتا ہے کہ اِس وقت امریکہ بھر میں لاکھوں نوجوان آئی فون فور ایس، آئی پیڈ ٹو، گیارہ انچ یا تیرہ انچ پتلے، ہلکے میک بک ایئر کمپیوٹرز کے دیوانے ہیں۔ لاکھوں نوجوان اِن مصنوعات کو خریدنے کی جستجو میں ہیں اور لاکھوں اُنھیں خرید چکے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ مشینیں اپنے خوبصورت ڈیزائن کے ساتھ ساتھ بلاشبہ کسی موٹر سائیکل سے کہیں زیادہ سستی ہیں اور وہ ان پر موٹر سائیکل سے کہیں زیادہ اسپیڈ کے ساتھ دنیا دیکھ سکتے ہیں یا یوں کہیے کہ اس سے کہیں زیادہ اسپیڈ کے ساتھ گھوم سکتے ہیں جب کہ وہ ا ان پر اپنا کام بھی کرسکتے ہیں۔
بہر طور، وجوہات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں، اخبار کے نزدیک یہ کہنا کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہوگی کہ امریکہ میں موٹر سائیکل کا دور اب ختم ہونے کو ہے۔
اور امریکہ کی معاشی کساد بازاری جہاں نوجوان کے رہن سہن کو اور موٹر سائیکل کی صنعت کو متاثر کر رہی ہے، وہاں سیاسی ماہرین کے نزدیک ملک کے آئندہ انتخابات پر بھی اِس کا بہت گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
اخبار ’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے اپنے ایک اداریے میں بیشتر سیاسی ماہرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکہ کی معاشی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو اِس کا اثر صدر اوباما کے دوبارہ انتخاب پر بھی پڑ سکتا ہے۔
اخبار ایک معروف اور موقر سیاسی ماہر Larry Bartels کے پیش کردہ فارمولے کا بالخصوص ذکر کرتا ہے جِس میں صدر اوباما کی اگلے انتخابات میں جیت کی پیش گوئی کرتے ہوئے یہ نکتہ پیش کیا گیا ہے کہ امریکی ووٹرز تاریخی اعتبار سے شاز و نادر ہی کسی ایسے صدر کو دوسری بار مسترد کرتے ہیں جس کی جماعت اپنی ایک مدت وہائٹ ہاؤس میں گزار چکی ہو، جب کہ انتخابات میں اُن کی کامیابی کے لیے دوسرا اہم عنصر، یعنی معیشت کی صورتِ حال، بھی صدر کے حق میں اِس لیے جاسکتی ہے کہ معیشت کو اہمیت دینے والے امریکی ووٹرز صدر کو اُس کساد بازاری کے خاتمے کا کریڈٹ دے سکتے ہیں جو اُن سے پہلے شروع ہوا تھا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: