رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ٹیکسوں میں چھوٹ نہ دی جائے، نیویارک ٹائمز


امریکی اخبارات سے: ٹیکسوں میں چھوٹ نہ دی جائے، نیویارک ٹائمز
امریکی اخبارات سے: ٹیکسوں میں چھوٹ نہ دی جائے، نیویارک ٹائمز

ایوان نمائندگان میں اس سلسلے میں جو بل زیرغور ہے اس کی رو سے واپس لائی جانے والی رقوم پرمعمول کی 35 فی صد کی شرح کے مقابلے میں صرف سوا پانچ فی صد کی شرح سے ٹیکس لگایا جائے گا۔جب کہ سینیٹ کے بل میں یہ شرح پونے نو فی صد تجویز کی گئی ہے

نیویارک ٹائمز کہتا ہے کہ واشنگٹن میں بحث اس پر ہو رہی ہے کہ کیونکر روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں اور بجٹ کا خسارہ کم کیا جائے۔لیکن دوسری طرف بڑی بڑی کارپوریشنیں بلکہ انتخابی مہم کے لئے چندے کی بھاری بھاری رقوم دینے والوں کا کانگریس پر دباؤ ہے کہ کہ کارپوریٹ منافعوں پرٹیکسوں میں انہیں بھاری کٹوتیاں دی جائیں۔ اور اخبار کو افسوس ہےکہ کانگریس ان کے مطالبات پورے کرنے کے لئے تیار معلوم ہوتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کثیر قومی کارپوریشنوں کا مطا لبہ ہے کہ انہیں ٹیکسوں میں ایک عارضی چھوٹ دی جائے جس کی مدد سے وہ باہر کے ملکوں سے اپنی کمائی ہوئی رقوم ، ٹیکس کی نہایت قلیل شرح کے ہوتے ہوئے واپس امریکہ منتقل کر سکیں گے۔ ایوان نمائندگان میں اس سلسلے میں جو بل زیرغور ہے اس کی رو سے واپس لائی جانے والی رقوم پرمعمول کی 35 فی صد کی شرح کے مقابلے میں صرف سوا پانچ فی صد کی شرح سے ٹیکس لگایا جائے گا۔جب کہ سینیٹ کے بل میں یہ شرح پونے نو فی صد تجویز کی گئی ہے۔

ان کارپوریشنوں کا موقّف ہے کہ ان کو یہ چھوٹ دینے سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔کیونکہ اس پیسے کے طفیل وہ ملازمتیں فراہم کریں گے اور ان کا کا روبار پھیلے گا۔ لیکن اخبار یاد دلاتا ہے کہ جب 2004 میں اسی قسم کی چھوٹ دی گئی تھی تو اس کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنے اور روزگار بڑھانے میں بیشتر ناکا می ہوئی تھی۔ اور 300 ارب ڈالر کی جو رقم اس طرح آئی تھی۔اس کا بیشتر حصّہ منافع تقسیم کرنے یا اسٹاک واپس خریدنے پر خرچ کیا گیا تھا۔ اور اس طرح کاروباری اگزیکٹو اور حصص کے مالکان امیر سے امیر تر ہو گئے تھے۔ اس کے باوجود ، اخبار کہتا ہے کہ اس کا واضح امکان موجود ہے کہ واشنگٹن کی آج کل کی کج رو سیاست میں ایک اور مرتبہ ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گی۔

اخبار نے وہائٹ ہاؤس کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے کہ ٹیکسوں میں ایک اور چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خبر دار کیا ہے کہ اگر صدر اوبامانے اس جدو جہد میں قیادت کا مظاہرہ نہیں کیا تو یہ غلط پالیسی قانون کا روپ دھارلے گی۔

اخبار نے خبردار کیا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ٹیکسوں میں چھوٹ دینے سے نہ صرف روزگار نہیں پیدا ہوگا بلکہ یہ بھی ہوگا کہ خسارہ بھی بڑھ جائے گا۔

امریکی صدارتی انتخابات

آج کل امریکہ میں اگلے سال کے انتخابات کے لئے صدارتی نامزدگی کے ری پبلکن امیدواروں کے مباحثوں میں سیاہ فام امید وار، ہرمن کین کا نام بہت سننے میں آ رہا ہے کیونکہ وہ ملک کے ٹیکسوں کے موجودہ نظام کی جگہ ٹیکسوں کے ایک نئے منصوبے کی وکالت کر رہے ہیں۔ جسے 9۔9۔9 ٹیکس منصوبے کا نام سے پہچانا جاتا ہے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار بوسٹن گلوب نے اسے ایک ایسے بوگس اکسیر سے تعبیر کیا ہے جس میں دولتمند وں کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ہرمین کین ایک کاروباری شخصیت ہیں جن کا منتخب عہدہ دار کی حیثیت سے کوئی تجربہ نہیں ہے اور جو ٹی پارٹی والوں کی نظر میں ایک خوبی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ کین کو اپنے نسخے کی تشہیر کرنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ اور اپنے ما فی الضمیر کو خوشنما طریقے سے پیش کرنے کا ہُنر بھی آتا ہے۔ لیکن اخبار کی نظر میں ان کا یہ غیر آزمودہ نسخہ حقیقت میں غیر منصفانہ اور قطعی طور پر غیر حقیقت پسندانہ ہے۔البتہ اس منصوبے کا ایک کلیدی پہلو اس روایتی ری پبلکن سوچ کے عین مطابق ہےکہ اقتصادی پالیسی کا آغاز اور انجام بعض یا تمام ٹیکس دہندگان کے ٹیکسوں میں چھوٹ دینے میں پنہاں ہے۔اخبار کے مطابق کین کے منصوبے کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ امیر ترین لوگ بہت کم ٹیکس ادا کریں گے۔ جب کہ بیشتر امریکیوں کے ٹیکس کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ اخبار کہتا ہے کہ ری پبلکنوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ٹیکسوں کا بڑھانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ جبکہ ڈیموکریٹوں کو بھی امریکیوں کو حاصل مراعات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

اخبارپینساکولا نُیوز جرنل ایک ادارئیے میں کہتا ہے کہ بیشتر ری پبلکن اس روائتی قدامت پسند عقیدے کے لکیر کے فقیر واقع ہوئے ہیں کہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہمیشہ معیشت کے لئے برا ہوتا ہے۔ جب کہ ان میں کمی کرنا ہمیشہ اچھا رہتا ہے۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ اس میں بعض تلخ حقائق کو نظر انداز کیا جا رہاہے ۔

مثلاًٍ جارج ڈبلیو بُش کی صدارت میں ریپبلکنوں نے ٹیکسوں میں چُھوٹ دے کر معیشت کو مہمیز لگانے کی جو کوشش کی تھی اس کا نتیجہ بد ترین کساد بازاری کی شکل میں نکلا تھا۔

اخبارکہتا ہے کہ ری پبلکن یہ حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ صدر بل کلنٹن کے دور صدارت میں ڈیموکریٹوں نے ٹیکسوں کی شرح بڑھائی ، تو ملک کو جو معیشت نصیب ہوئی وہ کئی عشروں میں بہترین تھی، اس وقت بے روزگاری کی شرح کم تھی۔ روزگار کے مواقع تیزی کے ساتھ بڑھ رہے تھے اور لوگو ں کی اجرتوں میں اضافہ ہو رہاتھا ۔

XS
SM
MD
LG