رسائی کے لنکس

سیاہ فام ووٹروں کی حمایت کے نتائج پر ممکنہ اثرات


Vatikan
Vatikan
امریکہ میں 2008 کے صدارتی انتخاب میں 95 فیصد سیاہ فام امریکیوں نے براک اوباما کو ووٹ دیا تھا۔ چار سال بعد، ریپبلکن پارٹی کے امیدوار مٹ رومنی کی کوشش ہے کہ مسٹر اوباما سے یہ حمایت واپس لے لی جائے۔

سیاسیات کے پروفیسرلورنزو مورس کہتے ہیں کہ اگر افریقی امریکی ووٹرز بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے نکل آئے تو براک اوباما صدارت کی دوسری مدت کاانتخاب جیت سکتے ہیں ۔

’’اگر وہ ووٹ دینے کے لیے گھر سے نہ نکلے تو بات اور ہے، ورنہ افریقی امریکیوں کے ووٹ بہت اہم ہوں گے۔ ان کے ووٹ ان ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں جو بہت اہم ہیں، اور2008 کے انتخاب میں ان کا جو اثر ہوا تھا اس کو دیکھتے ہوئے، افریقی امریکی ووٹروں کا رول بہت اہم ہوگا ۔

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اس بار بھی نیو یارک کے انجیلا جنکنز جیسی سیاہ فام امریکی ووٹروں سے مضبوط حمایت کی توقع کر سکتے ہیں۔

’’اگرچہ میں بے روزگار تھی لیکن صدر اوباما نے جو اقدام کیا اس کی وجہ سے مجھے اپنے لیے اور اپنے بیٹے کے لیے ہیلتھ انشورنس مل گیا۔‘‘

دوسرے ووٹرز خراب اقتصادی حالت کی وجہ سے صدر اوباما کے بارے میں اتنے پُرجوش نہیں ہیں۔ نیو یارک کے ایک اور ووٹر اینڈریو مارشل دو سال بے روزگار رہے۔

’’مجھے تقریباً آٹھ مہینے پہلے کام ملا ہے۔ اس معاملے میں بہتری کی رفتار بہت سست ہے۔ لوگ اس وجہ سے بہت پریشان ہیں۔‘‘

خراب اقتصادی حالات کے با وجود، بہت سے سیاہ فام ووٹر صدر اوباما کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں۔ ان میں برینڈن فرینکلن بھی شامل ہیں۔

’’میرا خیال ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ وہ ہر چیز راتوں رات تبدیل نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدارت کی دوسری مدت میں صدر اوباما نے جن چیزو ں کا وعدہ کیا تھا ان میں سے مزید کچھ کام مکمل کر لیں گے۔‘‘

ریپبلکن صدارتی اُمیدوار مٹ رومنی انتخابی مہم کے دوران سیاہ فام امریکی رائے دہندگان کو باور کراتے آئے ہیں کہ وہ ہی اُن کے مسائل کو بہترین انداز میں حل کر سکتے ہیں۔

’’اگر آپ ایسا صدر چاہتےہیں جو افریقی امریکی کمیونٹی کے لیے حالات بہتر کر دے، تو ایسا شخص آپ کے سامنےکھڑا ہے۔‘‘

روزگار کی تلاش میں مصروف جیف سمتھ بھی ایک سیاہ فام امریکی ووٹر ہیں۔

’’اگر مٹ رومنی وائٹ ہاؤس میں پہنچ گئے، تو انہیں کالے نوجوانوں کو اور بوڑھے کالے لوگوں کو ملازمتیں دینا پڑیں گی۔ میرے پاس کالج کی ڈگری ہے اور مجھے کوئی نوکری نہیں مل رہی ہے۔‘‘

لیکن بعض سیاہ فام ووٹروں کو خدشہ ہے کہ اگر مٹ رومنی امریکہ کے صدر بنے تو ’’ہیلتھ انشورنس جیسی علاج معالجے کی سہولتیں اُن سے واپس لے لی جائیں گی‘‘۔

کچھ ووٹرز اوباما انتظامیہ سے ناراض ہیں اور انہیں صدر سے مایوسی ہوئی ہے کہ انھوں نے امریکہ کی سیاہ فام آبادی کے مسائل پر توجہ نہیں دی ہے۔ ان میں ریاست نارتھ کیرولائنا کی خاتون ووٹر اولگا رائٹ بھی شامل ہیں۔

’’ہم نے لاطینی آبادی پر زور دیا ہے، ہم نے ہم جنس پرست آبادی کو توجہ دی ہے، لیکن جب افریقی امریکیوں کے مسائل کا سوال سامنے آتا ہے، تو مجھے ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام نظر نہیں آتا۔‘‘

جوائنٹ سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ اکنامک اسٹڈیز سے منسلک تجزیہ کار ڈیوڈ بازیٹس کی پیشگوئی ہے کہ افریقی امریکیوں کی بہت بڑی تعداد اوباما کی حمایت کرے گی۔

’’صدر اوباما کی حمایت کے علاوہ، سیاہ فام ووٹروں میں یقینی طور پر یہ اندیشہ بھی ہے کہ نہ معلوم ریپبلکن پارٹی کے ایجنڈے میں کیا چیزیں ہوں گی جن سے انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘

دوسرے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر صدر اوباما کواس انتخاب میں فتح حاصل کرنی ہے، تو افریقن امریکن آبادیوں کو پولنگ کے دن بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے آنا ہوگا، خاص طور سے ان ریاستوں میں جن کے نتائج سے صدارتی انتخاب کا فیصلہ ہوگا۔
XS
SM
MD
LG