|
امریکہ میں پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات نہ صرف امریکہ، بلکہ پاکستان میں بھی موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی، اقتصادی معاملات اور علاقائی سکیورٹی کے بارے امریکہ کی نئی قیادت کی ترجیحات اور پالیسیوں کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ امریکہ میں کن سی پارٹی برسر اقتدار آتی ہے، مثبت ڈپلومیسی پر زور دینا اہم ہو گا.لیکن خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظرکچھ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی بجائے دیگر معاشی طاقتوں کی جانب دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
سابق سفارتکار ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ اس وقت امریکہ پاکستان کی خارجہ ترجیحات میں نمبر ون نہیں ہے۔ پاکستان کی ترجیحات میں چین نمبر ون ہے۔ امریکہ کا جہاں تک تعلق ہے پاکستان چاہتا ہے کہ تعلقات معمول پر آئیں، نارمل ہوں اور بہتری کی جانب جائیں۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ، "اس وقت میں سمجھتی ہوں کہ کہ تعلقات انفلیکشن پوائینٹ پر ہیں یعنی کہ ان کو ری ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو نئی انتظامیہ آتی ہے امریکہ میں کیا اس کو دلچسپی ہو گی؟ یا وہ پاکستان کو صرف چین کے لینز سے دیکھے گی؟"
ان کا خیال ہے کہ اگر وہ حال کی طرح صرف چین کے لینز سے دیکھے گی تو پھر جو تعلقات کے چانسز ہیں وہ اتنے زیادہ نہیں ہوں گے۔"
حال ہی میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کیلئے سات ارب ڈالر کے نئے پیکیج کی منظوری دی ہے۔ اس نئے قرض پروگرام کے منظور ہونے بعد یہ تاثر پیدا ہواتھا کہ شاید پاکستان کی پالیسی امریکی اثر کے تابع نہیں ۔ تاہم ملیحہ لودھی اس سوچ اور خیالات کو مفروضے قرار دیتی ہیں۔
پاکستان کوئی ایسی چیز نہیں کرے گا جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ کسی قسم کے اینٹی چائنا یوایس سپانسر کولیشن کا حصہ بن رہا ہے۔ تو پاکستان کے چوائیسز کلئیر ہیں۔
دوسری جانب ماہرین معاشیات کی رائے ہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک، چین کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ ۔ اسی لئے امریکہ کو پاکستان کے معاشی اور دفاعی شعبوں میں چین پر انحصار پر تشویش ہے۔
ایس ڈی پی آئی( Sustainable Development Policy Institute) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ڈاکٹر ساجد امین جاوید کا کہنا ہےکہ "دینا اب ہمیں بہت زیادہ چین کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ آپ یورپ میں بات کر لیں۔ آپ امریکہ میں بات کر لیں۔ پاکستان کو جو بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے وہ چین کے حوالے سے زیادہ تر دیکھا جاتا ہے۔"
ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں اس کے نتیجے میں ظاہر ہے مسائل بھی سامنےآتے ہیں۔ اگر کوئی ایسی حکومت آجاتی ہے جو کہ چین کے حوالے سے بہت زیادہ جارحانہ ہے "تو وہ جارحیت کسی نہ کسی حد تک پاکستان پر بھی منتقل ہوتی ہے۔"
ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق یہ دلچسپ ہو گا کہ امریکہ میں کون سی پارٹی حکومت میں آتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کے لئے امریکہ اب بھی کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔
"پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکہ ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر آپکے جو ملٹی لیٹرل تعلقات ہیں چاہے وہ ورلڈ بنک ہے۔ چاہے وہ آئی ایم ایف ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کیا آپ اور امریکہ ایک پیج پر ہیں؟ آپکی اپنی پالیسیز اپنی جگہ لیکن ایک تو امریکہ کا ووٹ بہت بھاری ہے چاہے وہ آئی ایم ایف ہے یا باقی فیصلہ سازی والے فورم ہیں۔
اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو ا ہے۔ جس پر پاکستان کو کافی تشویش ہے ۔ معروف تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے بقول خطے میں بد امنی اور دہشت گردی کے واقعات پاکستان اور امریکہ کو قریب لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس،اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں۔
"یہ ایک مشترکہ مفاد ہے امریکہ کا، مغرب کا، یورب کا، پاکستان کا بلکہ ساری دنیا کا کہ افغانستان میں کوئی ایسا خلا نہیں پیدا ہو جائے کہ القائدہ، داعش اور اس قسم کی دہشت گرد تنظیمیں وہاں پر اپنا قدم نہ جما لیں۔ وہاں سے خبریں اچھی نہیں آ رہی اس وقت سب سے بڑا معاملہ ٹی ٹی پی کاہے جو افغانستان کے اندر پناہ لے کر پاکستان کے اندر حملے کرتی ہے۔"
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں، "جب بھی اس قسم کے حملے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں ہوئے ہیں تو امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور ایسے بیانات دئے ہیں جس میں ہماری حمایت اور دہشگردوں کی مذمت شامل ہے اس لحاظ سے اگر افغانستان کے اندر خطرات بڑھتے ہیں تو ہمارا تعاون بھی بڑھے گا۔"
مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ عالمی تعلقات میں نہ تو دوستیاں مستقل ہو تی ہیں اور نہ ہی دشمنی ۔ اس لیے امریکہ میں جو بھی پارٹی اقتدار میں آئے، پاکستان کو اپنے تعلقات بہتر بنانے اور دیگر طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
فورم