رائے عامہ کے تازہ ترین قومی جائزوں میں نیوٹ گنگرچ سب سے آگے ہیں اور آیو وا ور ساؤتھ کیرولائنا میں جہاں سب سے پہلے ووٹ ڈالے جاتے ہیں، انہیں دوسرے امیدواروں پر واضح سبقت حاصل ہے۔
آپ کو اپنے دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ ، تاریخ بنانے کا موقع ملے گا کیوں کہ امریکہ کا تقریباً ہر سیاسی رپورٹر یہاں موجود ہوگا۔
گنگرچ ریپبلیکن امیدواروں کی طویل فہرست میں سے ابھرنے والے تازہ ترین امید وار ہیں جو یہ کوشش کر رہےہیں کہ خود کو ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی کے ایسے متبادل کے طور پر پیش کریں جو ان کے مقابلے میں زیادہ قدامت پسند ہے۔
رومنی کی بیشتر توجہ نیو ہیمپشائر کا پرائمری انتخاب جیتنے پر مرکوز رہی ہے۔ یہ انتخاب 3 جنوری کے آیووا کاکس کے ایک ہفتے بعد ہوگا۔
رومنی نے اب تک اپنا بیشتر وقت اور سارا زورِ بیان اپنے ریپبلیکن حریفوں پر نہیں بلکہ صدر براک اوباما اور ان کے اقتصادی ریکارڈ پر تنقید کرنے میں صرف کیا ہے ۔
’’صدر اوباما بھلے آدمی ہیں۔ لیکن میرے خِیال میں وہ امریکہ کو نہیں سمجھتے ۔ وہ ہماری معیشت کو نہیں سمجھتے ۔میرے خِیال میں انہیں آزاد لوگوں کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے، ایسے لوگ جو زندگی میں اپنا لائحہ عمل طے کرنے کو آزاد ہوتےہیں۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریپبلیکنز کا انتخابی حلقہ مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ اب یہ دو امیدواروں کی دوڑ بنتی جا رہی ہے ۔ رومنی جو ایک عرصے سے سب سے آگے رہے ہیں، یعنی گنگرچ جو نمایاں حیثیت حاصل کرنے والے تازہ ترین امیدوار ہیں۔
لیکن رائے عامہ کے جائزوں میں کئی دوسرے ریبپلیکن امیدوار تیزی سے ابھرے ہیں اور پھر ان کی مقبولیت کم ہو گئی ہے ۔ ان میں منی سوٹا سے ایوانِ نمائندگان کی رکن میچل باکمان، ٹیکسس کے گورنر رِک پیری اورجارجیا کے بزنس مین ہرمین کین شامل ہیں۔ کین نے اپنی انتخابی مہم نا زیبا جنسی طرز عمل کے الزامات کے بعد معطل کر دی ۔ اور اب بقیہ سات ریپبلیکن امیدوار، ان کے حامیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اسٹیورٹ روتھنبرگ ریپبلیکن مقابلوں کے نشیب و فراز پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ریپبلیکن امیدواروں کے درمیان اس مقابلے میں جو افرا تفری میں نے دیکھی ہے اس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ یہ سب کچھ توقع کے مطابق ہوا ہے، تو وہ آپ کو بے وقوف بنا رہا ہے۔‘‘
رومنی کو ایک عرصے سے 2012 کے لیے ایک مضبوط ریپبلیکن امیدوار سمجھا جاتا تھا۔ چار سال پہلے انھوں نے نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اے بی سی ٹیلیویژن کے سیاسی تجزیہ کار میتھیو ڈواڈ کہتے ہیں کہ رائے عامہ کے جائزوں میں گنگرچ کے عروج سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ریپبلیکن پارٹی کی نامزدگی کی جنگ بہت طویل ہو گی۔
’’مٹ رومنی کے لیے یہ بڑی پریشان کن خبر ہے۔ ان کا تاثر یہ تھا کہ ان کی نامزدگی یقینی ہے ۔ اب اس غبارے میں سے ہوا نکل گئی ہے ۔یہ ریس اب بہت لمبی جا سکتی ہے۔‘‘
اسٹیورٹ روتھنبرگ کہتے ہیں کہ رومنی کو ریپبلیکنز کو قائل کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں قدامت پسند ہیں۔’’ایک معاملے میں یہ مقابلہ بالکل واضح ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کا ایک چوتھائی حصہ رومنی کو پسند کرتا ہے اور تین چوتھائی حصہ ان کے قریب بھی جانا پسند نہیں کرتا۔‘‘
دوسری طرف، صدر اوباما اپنے ساتھی ڈیموکریٹس میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’ہم پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ ہم مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور جنگ جاری رکھیں گے ۔ اور ہمیں اب بھی امید ہے کہ ہم وہ تبدیلی لا سکتے ہیں جس میں ہم پورا یقین رکھتے ہیں۔‘‘
امریکی معیشت کی خراب حالت اور صدر کی مقبولیت کی نیچی شرح کو دیکھتے ہوئے اسٹیورٹ روتھنبرگ کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما کی دوبارہ منتخب ہونے کی کوشش آسان نہیں ہو گی۔’’جب حالات اچھے ہوتے ہیں تو صدور کی واہ واہ ہوتی ہے، اور جب حالات خراب ہوتے ہیں تو الزام بھی انہیں کو دیا جاتا ہے ۔ ووٹرز تبدیلی لانے کے موڈ میں ہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ 2006, 2008 اور 2010میں تھے ۔‘‘
امریکی ووٹرز 2012 کی انتخابی مہم کا آخری فیصلہ 6 نومبر کو کریں گے جب وہ 6 نومبر کو ووٹ ڈالنے جائیں گے ۔