رسائی کے لنکس

چین: امریکی الیکٹرانک کمپنی میں کام کرنے والے ایغور مزدور جبری مشقت کا تو حصہ نہیں؟


ایغور کے روایتی لباس میں ملبوس ایک خاتون کارکن شنزو میں قائم یونیورسل الیکٹرانکس انکارپوریٹڈ میں دکھائی دے رہی ہے۔ 13 اپریل 2021
ایغور کے روایتی لباس میں ملبوس ایک خاتون کارکن شنزو میں قائم یونیورسل الیکٹرانکس انکارپوریٹڈ میں دکھائی دے رہی ہے۔ 13 اپریل 2021

ریموٹ کنٹرول بنانے والی ایک امریکی کمپنی یونیورسل الیکٹرنکس انکارپوریٹڈ (یو ای آئی) نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ اس نے سنکیانگ کے حکام کے ساتھ سینکڑوں ایغور کارکنوں کو چین کے ایک جنوبی شہر شنزو کے ایک پلانٹ پر بھیجنے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ ایک امریکی کمپنی کی کارکنوں کی منتقلی کے پروگرام میں شرکت کرنے کے معاملے کی پہلی تصدیق ہے جسے انسانی حقوق کے کچھ گروپ جبری مشقت کا نام دیتے ہیں۔

یو ای آئی سونی، سام سنگ، ایل جی، مائیکروسافٹ اور کئی دوسری ٹیک اور براڈکاسٹ کمپنیوں کے لیے آلات اور سافٹ ویئر تیار کرتی ہے اور اس کمپنی کا نیسڈک میں بھی اندراج ہے۔ اس کمپنی اور شنزو اور سنکیانگ کی حکومت کے بیانات اور مقامی ریاستی میڈیا کے مطابق اس کمپنی نے منتقلی کے ایک معاہدے کے ایک حصے کے طور پر سنکیانگ کے ایک دور افتادہ مغربی علاقے سے کم از کم 400 ایغور مزوروں کو بھرتی کیا ہے۔

سونی گروپ کارپوریشن، سام سنگ الیکٹرانکس کارپوریشن لمیٹڈ، ایل جی کارپوریشن اور مائیکروسافٹ کارپوریشن، ان سب کا یہ کہنا ہے کہ وہ سامان مہیا کرنے والی کمپنیوں ٘میں جبری مشقت کے خلاف ہیں اور اسے روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

شنزو اور ہوٹن کے حکام نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ اس تازہ ترین واقعہ میں سنکیانگ کے حکام نے سنکیانگ کے شہر ہوٹن سے پولیس کی نگرانی میں ایغور مزدوروں کی منتقلی کے لیے ایک چارٹر فلائٹ کے اخراجات کی ادائیگی کی ہے۔ اس منتقلی کی تصدیق شنزو پولیس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر گزشتہ سال فروری میں شائع ہونے والے ایک نوٹس سے بھی ہوتی ہے۔

اس منتقلی کے بارے میں پوچھے گئے سوالات میں یو ای آئی کے ترجمان نے کہا کہ کمپنی نے اپنے شنزو پلانٹ پر 365 ایغور مزدوروں کو بھرتی کیا ہے اور ان سے وہی برتاؤ کیا گیا جیسا کہ چین میں دوسرے مزوروں سے کیا جاتا ہے۔ ترجمان نے جبری مشقت کے الزام کو مسترد کر دیا۔

یو ای آئی کی ترجمان نے کہا کہ کمپنی نے گوانگسی سے بذریعہ ریل یا ہوائی سفر کے ذریعے مزدوروں کی اپنے شنزو پلانٹ میں منتقلی کے اخراجات برداشت کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی کو یہ علم نہیں ہے کہ سنکیانگ میں مزدوروں کی کس طرح تربیت کی جاتی ہے یا گوانگسی تک ان کی آمد و رفت کے لیے ادائیگی کون کرتا ہے۔

شنزو کے علاقے میں قائم یونیوسل الیکٹرانکس کا ایک پلانٹ۔ 13 اپریل 2021
شنزو کے علاقے میں قائم یونیوسل الیکٹرانکس کا ایک پلانٹ۔ 13 اپریل 2021

رائٹرز پلانٹ ورکرز کا انٹرویو کرنے سے قاصر تھا۔ چنانچہ وہ یہ تعین نہیں کر سکتا کہ کیا ان ایغور مزدورں کو یو ای آئی کمپنی کے پلانٹ پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ تاہم، انہیں جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ جبری مشقت کے زمرے پر پورے اترتے ہیں، جیسا کہ تنہائی میں کام کرنا، پولیس کی نگرانی میں رہنا اور نقل و حرکت کی محدود آزادی۔

شینزو حکومت کے جاری کردہ نوٹس اور مقامی سرکاری میڈیا کی تفصیلات کے مطابق، یو ای آئی کے ایغور مزدوروں کو پولیس کی نگرانی میں فیکٹری میں منتقل کیا گیا جہاں ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور وہ الگ الگ کوارٹرز میں کھاتے اور سوتے ہیں۔

اس طرح کے پروگراموں کے تحت ہزاروں ایغور مزدوروں کو سنکیانگ اور دیگر علاقوں میں قائم فیکٹریوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر حقوق گروپوں نے چین کی سرکاری دستاویزات اور نگرانی میں رکھنے جانے والے کارکنوں کی شہادتوں کے حوالے سے کہا ہے کہ انہیں یہ کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے پروگرام ایغور اکثریتی خطے میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے چین کے منصوبوں کا حصہ ہیں۔

رائٹرز کے سوالات کے جواب میں، چین کی وزارت خارجہ نے یو ای آئی میں روزگار کے معاملے سے صرف نظر کرتے ہوئے اس بات کو مسترد کیا کہ چین میں کہیں بھی جبری مشقت لی جاتی ہے۔

وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، جبرمشقت کی نام نہاد کہانی مکمل طور پر من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ چین کے دیگر حصوں میں کام کرنے والے سنکیانگ کے مزدور بھی دیگر تمام مزدوروں کی طرح ہیں اور قانون کے مطابق روزگار کے حق سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اور انہیں لیبر قوانین کے تحت قانونی حقوق اور فوائد حاصل ہیں۔

چین کے شہر شنزو میں واقع یونیورسل الیکٹرانکس میں ایک ایغور مزور کام کر رہا ہے۔ 12 اپریل 2021
چین کے شہر شنزو میں واقع یونیورسل الیکٹرانکس میں ایک ایغور مزور کام کر رہا ہے۔ 12 اپریل 2021

سنکیانگ کے حکام نے اس سلسلے میں کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے چین اور کئی دیگر ملکوں میں جبری مشقت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو سنکیانگ میں حکومت کی جانب سے ریاستی سرپرستی میں جبری مشقت کے طریقوں کی مستند اطلاعات ملی ہیں۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے یو ای آئی پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا لیکن ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں جبری مشقت سے فائدہ اٹھانا امریکی قوانین کے تحت جرم ہے۔

محققین اور اقوام متحدہ کے ماہرین کے اندازوں کے مطابق، چین نے 2017 سے اب تک 10 لاکھ سے زیادہ ایغوروں کو مخصوص حراستی مراکز میں رکھا ہے۔ چین کی حکومت اس الزام کو مسترد کرتے ہوئی کہتی ہے کہ یہ اصل میں پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیتی مراکز ہیں جہاں انہیں معاشرے میں رہنے اور روزگار کمانے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔

سرکاری میڈیا اور حکومتی بیانات کے مطابق ایغور مزدوروں کو چین کے دوسرے حصوں میں منظم طور پر منتقل کرنے کا عمل سن 2000 میں شروع ہوا تھا جس میں 2016 کے بعد توسیع کی گئی ہے۔

ایغور مسلمانوں کے خلاف چین کی مہم میں مسلم ممالک بھی 'معاون'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:16 0:00

سنکیانگ کے حکام نے جولائی کے آخر میں بیجنگ میڈیا کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ سنکیانگ سے باہر کارکنوں کی منتقلی رضاکارانہ ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان ژو گوشیانگ نے کہا، "بہت سی صنعتیں سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے مزوروں کو ان کی مہارتوں کے مطابق روزگار مہیا کرتی ہیں۔ مزور وہاں جاتے ہیں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے۔

یو ای آئی کے ترجمان نے تصدیق کی کہ کمپنی نے ایک تیسرے فریق کے ایجنٹ کے ذریعے سنکیانگ حکام کے ساتھ 2019 میں معاہدہ کیا تھا۔ یو ای آئی کے مطابق ایجنٹ ہی مزدور مہیا کرتا ہے اور وہی ان کی تنخواہوں وغیرہ کا ذمہ دار ہے۔

ترجمان نے یہ تو نہیں بتایا کہ ایغور کارکنوں کو کیا تنخواہ دی جاتی ہے؛ تاہم اس کا کہنا تھا کہ وہ دوسروں کے مساوی معاوضہ موصول کرتے ہیں۔

تاہم اکنامک ڈیلی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یو ای آئی سنکیانگ کے مزدوروں کو لگ بھگ 465 ڈالر ماہانہ ادا کر رہا تھا۔

یو ای آئی میں رکھے گئے ایغور مزدور ایک بہت بڑے نظام کا حصہ ہیں۔ رائٹرز کے مطابق سنکیانگ اور کاشغر میں لیبر ایجنٹوں کو علاقے سے باہر سالانہ 20 ہزار ایغور ملازم رکھنے کا ہدف دیا گیا ہے۔

لیبر ایجنٹوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ایغور مزدور کمپنیوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہیں، کیونکہ ان کے تمام انتظامات چین کی حکومت کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی بھی کرتی ہے۔

یو ای آئی کے پلانٹس میں زیادہ تر نوجوان ایغور مزدوروں کو الگ الگ ہوسٹلز میں رکھا جاتا ہے اور سنکیانگ حکومت کے منیجرز ان کی نگرانی کرتے ہیں، جب کہ دوسرے مزوروں کی اس طرح کی نگرانی نہیں ہوتی۔

رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شنزو ڈسٹرکٹ کی ویب سائٹ پر ایک سرکاری اعلان کے مطابق ایغور مزدوروں کو تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا پابند کیا گیا ہے۔ یہ سرگرمیاں فیکٹری کے اندر پولیس اور عدالتی حکام کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔

XS
SM
MD
LG