جب سے طالبان نے حکومت سنبھالی ہے عبدالغنی سبط افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کو بڑی توجہ سے دیکھتے آ رہے ہیں۔
سبط ایغور ہیں اور وہ چین کے سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے سے تعلق رکھنے والے مسلم اقلیتی گروپ کے رکن ہیں۔ وہ 2007 سے ہالینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ایغوروں کے حقوق کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔
سبط نے وی او اے کو بتایا کہ "طالبان برسوں سے ایسے مسلم گروہوں کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں جنہیں مبینہ طور پر مختلف ملکوں یا علاقوں میں ریاستی حکام کی جانب سے بدسلوکی یا زیادتی کا نشنانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے فلسطین، کشمیر اور دنیا کے دیگر حصوں میں مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی ہے اور انہیں کہا ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں۔
سبط نے کہا کہ تاہم طالبان انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شمال مغربی چین کے سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کی نشاندہی پر خاموش ہیں۔ یہ علاقہ افغانستان کے ساتھ ملتا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے چینی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دیگر ترک مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے، جہاں انہیں مبینہ طور پر اپنا مذہب اسلام چھوڑنے اور چینی کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کا عہد کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں دیگر بدسلوکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں جبری نس بند اور جبری مشققت وغرہ شامل ہیں۔
چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مراکز حراستی کیمپ نہیں ہیں بلکہ پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے مراکز ہیں جہاں ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جن کے ذہنوں میں "مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اور علیحدگی پسندی" کا زہر بھر دیا گیا ہے۔
طالبان اور الغور تعلقات
وسطی ایشیا کے بہت سے اسکالر، طالبان اور ان کے ایغوروں کے متعلق خیالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
طالبان ایک کثیر القومی سیاسی تحریک ہے جب کہ ایغور ایک نسلی گروہ ہے۔ بہت سے ایغور چین میں رہتے ہیں اور ان کے دینی عقائد کا نظام افغانستان کے لوگوں جیسا ہے۔
ایک جنگ مخالف تنظیم 'کنسلٹنٹ انٹرنیشنل کرائسس گروپ' کے ایک ماہر ابراہیم باہیس نے کہا ہے کہ "جب ہم طالبان کا حوالہ دیتے ہیں تو ہم عام طور پر 'تحریک' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کی اپنی نظریاتی وابستگی ہے۔ اس میں مختلف گروپس شامل ہیں۔ لہذا، یہ ایک سیاسی وجود ہے اور یہ کوئی نسلی گروپ نہیں ہے۔
ماہرین اور سبط کے مطابق چین میں زیادہ تر ایغور اور افغانستان کے لوگ سنی مسلمانوں کے حنفی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو تاریخی، مذہبی لحاظ سے دو گروہوں کے درمیان ایک ثقافتی تعلق ہے۔ بہت سے ایغور طالبان کو ایک بیرونی عنصر کے طور پر دیکھتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم مشرقی ترکستان قومی بیداری کی تحریک کے ایغور صدر اور بانی صالح ہدایار کا کہنا ہے کہ بیشتر ایغور اپنے اسلامی عقائد کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں بہت آزاد خیال ہیں۔
صالح ہدایار نے وی او اے کو بتایا کہ "طالبان کے برعکس ایغور خواتین اور بچوں کے حقوق بالخصوص تعلیم کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ بیشتر ایغور طالبان کے ہمدرد نہیں ہیں اور انہیں انتہا پسند سمجھتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر طالبان کو شدت پسند سمجھتا ہوں کیونکہ ان کا مذہب کا نفاذ، اسلام کی عمومی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا اور طالبان نے افغان عوام کے انسانی حقوق کو کمزور کرنے کے لیے مذہب کی مؤثر طریقے سے سیاست کی ہے۔"
طالبان اور چین
سبط نے وی او اے کو بتایا، "اگر طالبان چین میں ایغور مسلمانوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو اس سے عالمی سطح پر اس کی ساکھ بن سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب مسلم دنیا کے مسائل کی بات آتی ہے تو طالبان اب اپنی جنگ کے انتخاب میں مختلف ہوتے ہیں کیونکہ وہ اب صرف ایک تحریک نہیں بلکہ ایک ملک کے نمائندے ہیں۔ طالبان حکومت چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ افغانستان کو درکار وسائل حاصل کیے جا سکیں۔
باہیس نے کہا کہ چین ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس صلاحیت ہے اور جس نے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، بشرطیکہ وہ دہشت گردی کے خلاف بنیادی ضروریات کو پورا کریں۔
9 ستمبر کو چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین سے پوچھا تھا کہ کیا طالبان بیجنگ کی درخواست پر ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کے ایغور عسکریت پسند گروپ کو حوالے کرنے پر غور کریں گے؟
شاہین نے گلوبل ٹائمز کو بتایا، "میں جانتا ہوں کہ دوحہ معاہدے کے بعد، بہت سے لوگ افغانستان سے چلے گئے ہیں، کیونکہ ہم نے واضح طور پر کہا تھا کہ افغانستان کے لیے ہمسایہ ممالک سمیت دیگر ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔"
اقوام متحدہ کی جون کی ایک رپورٹ کے مطابق، چین سے جلا وطن ہونے والے اسلام پسند ایغورں نے ترکستان اسلامک پارٹی کے نام سے ایک باغی گروپ تشکیل دیا ہے جس کے کئی سو ارکان ہیں۔ اقوام متحدہ اس گروپ یعنی ETIM کو بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم قرا دے چکا ہے۔
باہیس نے وی او اے کو بتایا، "میں نہیں سمجھتا کہ طالبان آنے والے مہینوں یا شاید برسوں میں بھی لوگوں کو ملک سے باہر نکالنے کی درخواست قبول کر لیں گے کیونکہ طالبان کی صفوں میں ممکنہ طور پر ایغور ہمدردوں کی طرف سے ردعمل کا خوف ہے۔
لیکن دیگر ماہرین ماضی میں طالبان کے اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سٹڈیز پروگرام کے ڈائریکٹر اور مصنف شان رابرٹس کا کہنا ہے کہ طالبان نے چین کے اندر ایغوروں کے بارے میں کبھی واضح موقف نہیں لیا، بلکہ انہوں نے افغانستان کے اندر ایغوروں کے حوالے سے چین کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
رابرٹس نے وی او اے کو بتایا، "1990 کی دہائی کے آخر سے، چینی حکومت نے طالبان سے مدد مانگی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان میں کوئی بھی ایغور، اپنے ملک کے ایغوروں کی آزادی کی وکالت نہیں کر سکے اور نہ ہی عوامی جمہوریہ چین کے لیے کسی قسم کا خطرہ بن سکے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے ایسا ہی کیا اور یہ یقینی بھی بنایا کیونکہ 1990 کی دہائی کے آخر اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں افغانستان میں موجود ایغور افراد چین کے لیے خطرہ بننے کے قابل نہیں تھے اور نہ ہی قانونی یا سیاسی حقوق یا انسانی حقوق کی آواز اٹھا سکتے تھے۔"
تمام ایغور عسکریت پسندوں کے حامی نہیں ہیں
رابرٹس کہتے ہیں کہ بہت سے ایغور انسانی اور سیاسی حقوق کے لیے اپنی جدوجہد میں مذہب کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
رابرٹس کا کہنا ہے کہ "بہت سے ایغوروں نے، خاص طور پر امریکہ میں 9/11 کے حملوں کے بعد سے، دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایغوروں کا شدت پسند گروہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
عبدالغنی سبط بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایغور مذہبی بنیاد پرست یا انتہا پسند نہیں ہیں یا انہوں نے طالبان جیسی مذہبی سیاسی تحریک نہیں بنائی ہے، لیکن دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بعد سے چین ہمیں غلط طریقے سے مذہبی انتہا پسند یا دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہہ رہا ہے انہیں تربیتی کیمپوں میں رکھنے کی ضرورت ہے۔