امریکہ نے چین کے مزید حکام پر ویزا پابندیاں عائد کر دی ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے تبت کے لگ بھگ 10 لاکھ بچوں کو چینی معاشرے میں ضم کرنے کے لیے انہیں جبراََ اپنے خاندانوں سے الگ کر کے بورڈنگ اسکولوں میں رکھا۔
امریکی حکام کے مطابق امریکہ تبت کے بچوں کو جبری طور پر چینی معاشرے میں ضم کرنے والے چینی اہل کاروں پر ویزا کی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین کہہ چکے ہیں کہ تبت کے لگ بھگ 10 لاکھ بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کیا گیا ہے۔
امریکہ اور چین میں اعلیٰ سطح کی بات چیت کی بحالی کے باوجود بیجنگ پر واشنگٹن ڈی سی کی پابندیوں کے اقدامات جاری ہیں۔
چینی حکام پر حالیہ پابندیوں سے متعلق منگل کو ایک بیان میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ چین کی حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے بورڈنگ اسکولوں کی پالیسی کے پیچھے موجود حکام کے ویزوں کو محدود کرے گا۔
وزیرِ خارجہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ جبری پالیسی کے تحت تبت کی نوجوان نسل میں مقامی زبان، ثقافت اور مذہبی روایات کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے چینی حکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ تبت کے بچوں کو حکومت کے زیرِ انتظام بورڈنگ اسکولوں میں لے جانے پر مجبور نہ کریں۔
قبل ازیں امریکہ 2021 میں چین پر اس کے علاقے سنکیانگ میں نسل کشی کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔
امریکی حکام اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی رہی ہیں کہ سنکیانگ میں جبری مشقت کے کیمپوں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جہاں ایغور اقلیت کے لوگوں کو رکھا جاتا ہے۔ چین اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔
چین کے حکام پر عائد کی گئی حالیہ پابندیوں پر امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ نئی پابندیوں کا اطلاق تبت میں تعلیمی پالیسی میں شامل موجودہ اور سابق اہل کاروں پر ہوگا۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے ان افراد کی شناخت ظاہر نہیں جو ان پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔ ترجمان نے ویزا ریکارڈ کے بارے میں امریکہ کے رازداری کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیلات نہیں بتائیں۔
ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین اور وہاں کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے موجودہ یا سابق حکام اس پابندی کی زد میں آئیں گے۔
یہ چینی حکام مذہبی رہنماؤں، نسلی گروہوں کے ارکان، حکومت کے مخالف افراد، مزدور رہنماؤں، سول سوسائٹی کے ارکان، انسانی حقوق کے وکلا اور صحافیوں کے خلاف جبری کارروائیوں یا پالیسی کے لیے ذمہ دار ہیں۔
امریکہ نے دسمبر میں دو اعلیٰ سطح کے چینی عہدے داروں وانگ یی اور ژانگ ہونگ بو پر تبت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے الگ الگ پابندیاں عائد کی تھیں۔
چین نے 1951 میں تبت میں فوج کی تعیناتی کی تھی اور اسے ’پر امن آزادی‘ سے تعبیر کیا تھا۔ اس کے بعد سے بیجنگ کا تبت پر کنٹرول برقرار ہے۔
چین کا سرکاری میڈیا تبت کے شہریوں کی ایک خوش باش زندگی کی تصویر کشی کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ تبت میں ان کی پالیسیاں مذہبی، سماجی اور نسلی ہم آہنگی پیدا کرنے کی عکاس ہیں۔
’انٹرنیشنل کمپین فار تبت‘ نامی تنظیم کی صدر ٹینچو گیاتسو کہتی ہیں کہ چینی حکام کی جانب سے تبت کے بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کرنے کی غیر اخلاقی کارروائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
وہ اس بارے میں مزید کہتی ہیں کہ یہ اقدام تبت کے مکینوں کی طرزِ زندگی کو بدلنے اور یہاں کے باشندوں کو کمیونسٹ پارٹی کے پیرو کاروں میں تبدیل کرنے کے منصوبے کا عکاس ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں چین کے سفارت خانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بیجنگ چین کے حکام کے خلاف ویزا پابندیوں سے متعلق امریکہ کے اقدامات کی سختی سے مخالفت اور مذمت کرتا ہے۔
چینی سفارت خانے کے ترجمان کے مطابق بورڈنگ اسکول چین کی نسلی اقلیتی کے علاقوں میں اسکولوں کو چلانے کا اہم طریقہ ہے۔
بورڈنگ اسکولوں کے حوالے سے ان کا مؤقف ہے کہ یہ مرکزی طریقہ نسلی اقلیت کے طلبہ کے فاصلے پر اسکول جانے میں دشواری کے مسئلے کو مؤثر انداز سے حل کرتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے رواں برس فروری میں کہا تھا کہ وہ بہت فکرمند ہیں کہ حالیہ برسوں میں چین تبت کے بچوں کے لیے بورڈنگ اسکولوں کے ایسے وسیع نظام کے پروگرام پر کام کر رہا ہے جس کا مقصد تبت کے شہریوں کو چین کی اکثریت’ ہان‘ ثقافت میں ضم کرنا ہے۔
ان کے بقول ایسا کرنا بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے معیار کے برعکس ہے۔
فورم