" میں پوری رات سو نہیں سکا۔ مجھے سانس کی تکلیف بھی شروع ہو گئی ہے۔آکسیجن لے رہا ہوں۔ موت کے منہ سے واپس آنے کے منظر کو یاد کرتے ہوئے مزید خوف کا شکار ہو جاتا ہوں۔"
یہ کہنا ہے کہ نویں جماعت کے طالب علم اسامہ کا جو ان آٹھ افراد میں شامل تھے جو خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں لگ بھگ 15 گھنٹے تک ایک دیسی ساختہ کیبل کار میں پھنسے رہےتھے۔
منگل کی صبح پیش آنے والے واقعے میں اسامہ سمیت سات طالب علم اور ایک استاد تحصیل الائی میں دو پہاڑوں کے درمیان واقع کیبل کار کی تار ٹوٹنے کی وجہ سے درمیان میں ہی پھنس کر رہ گئے تھے۔ انہیں فوج اور مقامی افراد کی کوششوں کے بعد رات گئے ریسکیو کیا گیا۔
اسامہ الائی کی یونین کونسل پاشتو ڈنہ کے رہائشی ہیں جو روزانہ اسکول جانے کے لیے اس کیبل کار کا سفر کرتے ہیں۔
ان کے بقول وہ صبح چھ بجے گھر سے اسکول کے لیےنکلتے ہیں اور ایک گھنٹے کا دشوار گزار سفر طے کر کے کیبل کار تک پہنچتے ہیں۔ کیبل کار انہیں پہاڑ کے دوسری طرف پہنچاتی ہے جہاں ان کا اسکول ہے۔
اسامہ کے مطابق کیبل کار کا کرایہ ایک طرف سے فی کس بیس روپے جب کہ اسکول کے بچوں کے لیے دس روپے ہے۔
اسامہ چوں کہ زیادہ بات نہیں کر سکتے تھے اس لیے ہم نے ان کے چچا قاری امان اللہ سے بات چیت کی۔
قاری امان اللہ نے بتایا کہ کیبل کار عرصہ دراز سے پراچڑ، ڈنہ اور جنگڑئی کے علاقوں کو بٹنگئی کے علاقے سے ملاتی ہے۔ جہاں بچے مڈل اور ہائی اسکول پڑھنے جب کہ دیگر افراد اپنی ضروریات کا سامان لانے کے لیے بازار جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کیبل کار حادثے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ کیبل کار کے پھنسنے کا واقعہ تقریباً صبح سات بجے پیش آیا جس کے بعد اس کے مالک نے قریبی مسجد میں اعلان کرکے علاقے کے افراد کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
قاری امان کے مطابق مسجد میں اعلان کے بعد لوگ جوق در جوق کیبل کار کے مقام کی جانب روانہ ہوئے لیکن زیادہ اونچائی کی وجہ سے مقامی افراد بے بس تھے۔
"میں نے اپنے بھتیجے کو کیبل کار میں دیکھا اس کے باوجود ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔"
قاری امان کے مطابق اس پورے علاقے میں صرف ٹیلی نار کمپنی کا موبائل نیٹ ورک ہی کام کرتا ہےاور اس کا نظام بھی شمسی توانائی پر چلتا ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے سورج کی روشنی قدرے دیر سے وہاں پہنچتی ہے تو اس وجہ سے علاقے میں سگنلز نہیں تھے۔ بعد میں جب سورج کی رو شنی آہستہ آہستہ علاقے میں نمودار ہونا شروع ہوئی تو موبائل فونز کے سگنلز نے بھی کام کرنا شروع کیا۔ جس کے بعد ان کی بات اپنے بھتیجے سے ہو گئی۔
قاری امان نے بتایا کہ اسامہ خوف کا شکار تھا اور وہ دیگر بچوں کی رونے کی آوازیں بھی سن سکتے تھے۔ کیوں کہ تقریباً نو سو فٹ کی بلندی اور نیچے گہری کھائی تھی۔ جہاں بہتے ہوئے تیز پانی کی آواز صاف سنائی دی جا رہی تھی۔
قاری امان اللہ کے مطابق شام چھ بجے کے بعد بچوں کے حوصلے پست ہونا شروع ہو گئے تھے، کیوں کہ تاریکی کے باعث ہیلی کاپٹر آپریشن کو ملتوی کرنا پڑا تھا اور اس وقت تک صرف ایک بچے کو ہی ریسکیو کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد بچوں کو بحفاظت نکالنے کے لیے کوششیں کر رہے تھے لیکن مقامی انتظامیہ اور فوج کی جانب سے انہیں اس سارے معاملے سے دور رہنے کی تاکید کی گئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل کمشنر بٹگرام سید حماد حیدر نے بتایا کہ وہ کسی بھی طور پر خطرہ مول لینانہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے مقامی افراد کے اصرار کے باوجود انہوں نے استفادہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
سید حماد حیدر کے مطابق دور دراز دشوار گزار علاقوں میں اس قسم کی کیبل کار مقامی سطح پر آپریٹ کی جاتی ہیں۔ ان کا باقاعدہ لائسنس وغیرہ شاذونازر ہی لیا جاتا ہے۔ یہ گھنٹوں کا فاصلہ چند منٹوں میں طے کرتی ہیں اور علاقے کے بہت سے افراد اس سروس سے مستفید ہوتے ہیں۔
ایڈیشنل کمشنر کے مطابق وہ اور ضلع کا تمام عملہ بشمول آرمی کےجنرل آفیسر کمانڈنگ( جی او سی) خود اس آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ ان کے بقول شروع میں فوجی ہیلی کاپٹر نے ایک بچے کو ائیر لفٹ کیا تاہم جغرافیائی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے خیال میں اونچے درختوں، تاروں اور بلند پہاڑوں کی وجہ سے ہیلی کاپٹر آپریشن اس مقصد کے لیے موزوں نہیں تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہیلی کاپٹر آپریشن کےکارگرنہ ہونے کے بعد پلان بی کے تحت ایس ایس جی کمانڈوز کی مدد کے لیے مانسہرہ سے ویلی ایڈونچر کلب سے تین تربیت یافتہ افراد کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جس کے بعد تقریبا رات گیارہ بچے یہ تمام آپریشن پُرامن طریقے سے مکمل ہو گیا۔
شارق ریاض خٹک ڈسٹرکٹ بٹگرام ریسکیو 1122 میں بطور ضلعی ایمرجنسی آفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دن دو بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک وہ وہیں موجود تھے۔ اور جب تمام افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا تو پھر وہ اپنے ہیڈ کوارٹر روانہ ہوئے۔
انہوں نے بٹگرام ریسکیو آپریشن سے متعلق بتایا کہ اس آپریشن کےلیے دو طرف رسی باندھی گئی تھی۔ ایک طرف ریسکیو 1122 کے اہلکار موجود تھے جب کہ دوسری جانب فوج کے کمانڈوز تھے۔
شارق ریاض خٹک کے بقول، آپریش کے دوران ایک بچے کو ایئر لفٹ، دو بچوں کو ریسکیو 1122 اور بقیہ پانچ کو آرمی کےکمانڈوز نے ایڈونچر کلب کے ماہرین کے مدد سے بچایا۔
فورم