امریکی سفیرریان سی کروکر نےکابل میں نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدھ کو دستخط کیے گئےاسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے کے تحت امریکہ کو افغانستان میں مستقل اڈے قائم کرنےیا افغان سرزمین کو دوسرے ممالک پر حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
لیکن، اُنھوں نے کہا کہ یہ معاہدہ کسی بھی طرح افغانستان اور امریکہ کو اپنے دفاع کے حق سے محروم نہیں کرتا، کیونکہ اس کے مطابق کسی اندرونی یا بیرونی خطرے کی صورت میں دونوں ممالک مشاورت سے اس کا مناسب جواب دینے کا فیصلہ کریں گے۔
پاکستان میں عسکریت پسندوں کے مشبتہ ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کے بارے میں سوال پر امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین سے ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملوں میں اتحادی افواج کے علاوہ افغان شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اُن کے بقول، اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت ہمیں اُن کا جواب دینے کا حق حاصل ہے، جسے ہم استعمال کریں گے۔
افغان دارالحکومت میں بدھ کی صبح مہلک خودکش حملوں کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ان کے ذمہ داران کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن، ماضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کارروائی میں طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا، جس کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ چاہے گا کہ پاکستان اِن ٹھکانوں اور سرحد پار حملوں میں کمی کے لیے اقدامات کرے۔
امریکی سفیر نے کہا کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں سےمفاہمت کی کوششوں میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے، کیونکہ، اُن کے بقول، چاہے وہ کوئٹہ شوریٰ ہو یا ادیگر شدت پسند گروہ، اِن تمام کی قیادت پاکستان ہی میں موجود ہے۔
پاک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر ڈرون حملے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ رہے ہیں، کیونکہ اسلام آباد اسے ملک کی خودمختاری کے خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔
پاکستانی حکام بارہا یہ واضح کرچکے ہیں کہ اُن کے ملک کا کوئی بھی ادارہ حقانی نیٹ ورک یا کسی دوسرے گروہ کی پشت پناہی نہیں کررہا، جب کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے رواں سال فروری میں افغان طالبان کی قیادت اور حزب اسلامی سمیت دیگر دھڑوں سے اپیل کی تھی کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کابل حکام کے مصالحتی عمل میں شرکت کریں۔