امریکہ کی طرح یورپی یونین نے بھی تھائی لینڈ کی طرف سے ایغور برادری کے 100 سے زائد افراد کو زبردستی چین بھیجنے کی مذمت کی ہے جہاں انہیں سخت برتاؤ اور قانونی عمل کے فقدان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یورپی یونین کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ملک بدری کو بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے مہاجرین نے اس زبردستی ملک بدری پر نہایت دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں تھائی حکام کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ ان افراد سے بین الاقوامی قانونی معیار کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
تھائی لینڈ نے ترکی کی طرف سے ایغور برادری کے ان افراد کو قبول کرنے کی رضامندی کے باوجود 100 سے زائد افراد کو جن میں بچے اور خواتین بھی تھے، چین واپس بھیج دیا ہے۔
ان افراد کی چین بدری کے بعد ہونے والے مظاہروں کے تناظر میں تھائی لینڈ نے انقرہ میں اپنا سفارت خانہ بند کردیا ہے۔
چین کے شمال مغربی خطے سنکیانگ میں رہنے والے مسلمان ایغور برادری کے افراد ترکی زبان بولتے ہیں۔ وہ طویل عرصے سے سرکاری سطح پر مبینہ امتیازی سلوک کی شکایت کررہے ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ ایغور برادری کے وہ افراد جو ملک سے فرار ہو گئے ہیں وہ بیرونی دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
تھائی لینڈ کی حکومت کے ترجمان میجر جنرل ویراچان سخونتھاپاٹیپک نے کہا تھا کہ مذکورہ ایغور تارکین وطن ایک سال سے زائد عرصے تک حراست میں تھے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ یہ طے ہونے کے بعد کہ یہ تارکین وطن چینی شہری ہیں انہیں چین واپس بھیج دیا گیا جبکہ دیگر 170 کو جن کے بارے میں معلوم ہو ا کہ وہ ترکی کے شہری ہیں انہیں ترکی بھیج دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تھائی لینڈ نے بیجنگ سے یہ یقین دہانی لی ہے کہ ان تارکین وطن کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا ئے گا تاہم اس سے انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں مطمئین نہیں ہیں۔
امریکہ نے تھائی لینڈ کے عہدیداروں پر زور دیا ہے کہ تھائی لینڈ میں باقی رہنے والے ایغور نسل کے افراد کو رضاکارانہ طور پر اپنی پسند کے ملک جانے کی اجازت دیں۔