شہزاہ سلطان ایئر بیس سعودی عرب کے وسیع صحرا میں قائم ہے، جہاں سیکڑوں خیمے لگ چکے ہیں۔ ٹارمک پر امریکی فضائی فوج کے اسکواڈرن کے ایف 15 ای لڑاکا طیارے قطار میں کھڑے ہیں۔ یہ طیارے عراق اور شام میں روزانہ کیے جانے والے مشنز میں شامل ہوتے رہے ہیں۔
یہ ایئربیس پہلے بھی امریکی فوج کا ایک اہم اڈا رہی ہے۔ گزشتہ موسم گرما سے اب تک یہاں امریکی فوج کی موجودگی میں تقریباً 2500 اہلکاروں کا اضافہ ہو چکا ہے۔
امریکی افواج کی شہزادہ سلطان ایئر بیس پر واپسی کے معاملے کو اگر ایران کی جانب سے دی گئی دھمکیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کا یہ فیصلہ ایک ڈرامائی حیثیت کا حامل ہے۔
بدھ کو مشرقِ وسطیٰ میں تعینات اعلیٰ امریکی کمانڈر نے یہاں چند گھنٹے گزارے اور اپنے کمانڈروں اور فوجیوں کے ساتھ ملاقات کی۔
میرین جنرل فرینک مکنزی نے کہا کہ شہزادہ سلطان ایئر بیس کا مقام پیچیدہ ہے، جسے ایران نشانہ نہیں بنا سکتا۔ امریکی فوجوں، فائٹر جیٹ طیاروں اور دیگر اثاثوں کے لیے یہ دور افتادہ مقام کا درجہ رکھتا ہے۔
ساتھ ہی یہ سعودی عرب کے لیے بہتر سیکیورٹی کا حامل مقام ہے، جس نے گزشتہ ستمبر میں ایرانی ڈرون اور میزائل حملوں کے بعد امریکہ سے مدد مانگی تھی۔
اس وقت ریت میں کھڑے کیے گئے سفید خیمے مشن کے لیے عارضی ٹھکانے کا کام کر رہے ہیں۔ لیکن 378ویں ایئر ایکس پیڈشنری ونگ کے ایئر فورس کرنل، جیسن کنگ کے مطابق، اس کے پیچھے ایک شاندار منصوبہ بندی کا عمل دخل ہے، جب کہ خیموں کو ٹریلرز اور دیگر مستقل ڈھانچے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
جنرل مکنزی نے اس سوال کا واضح جواب نہیں دیا کہ امریکہ یہاں کب تک رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔