مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال میں ایران کے اعلیٰ کمانڈر قاسم سلیمانی کی امریکی فضائی کارروائی میں ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والے صورتحال کے نہایت سنگین مضمرات تجزیہ کاروں اور ماہرین کے خیال میں مشرق وسطیٰ کے خطے کے اندار اور باہر ہو سکتے ہیں۔
ایران کا جنرل قاسم سلیمانی کے ہلاکت پر شدید ردعمل آنے کی صورت میں خطے کی کشیدگی میں نہ صرف مزید اضافہ ہو گا بلکہ خطے میں جنگ کا خطرہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کے خیال میں مشرق وسطی پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ صورت حال جہاں فریقین کے لیے سود مند نہیں ہو گی وہیں پاکستان کے لیے بھی سفارتی، سیاسی اور عسکری طور پر چیلنج سامنے آ سکتے ہیں۔
جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے اعلان کے بعد صورت حال کو بگڑنے سے بچانے کے لیے امریکہ نے خطے کے ممالک سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آج افغانستان کے صدر اشرف غنی اور پاکستان کے آرمی چیف سے بات کی۔
اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے دفاع میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر میرے اور پاکستان کے چیف آف سٹاف جنرل باجوہ کے درمیان بات ہوئی۔ ایرانی حکومت کی کارروائیاں خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر رہی ہیں اور ہم امریکی مفادات، اہل کاروں، تنصیبات اور شراکت داروں کا تحفظ کریں گے۔
صورت حال پر پاکستان کا اظہار تشویش
پاکستان نے مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس صورت حال سے خطے کے امن و استحکام کو خطرہ ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی ختم کرنے کے لیے تعمیری بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ فریقین اپنے باہمی معاملات اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق سفارتی طریقے سے حل کریں۔
'پاکستان کی تشویش درست ہے'
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورت حال پر پاکستان کی تشویش درست ہے کیوں کہ اگر اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تو اس کے پاکستان کے لیے بھی مضمرات ہو سکتے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ عسکری لحاظ سے پاکستان کے لیے فوری طور پر کوئی بڑا چیلنج نہیں ہوگا۔
ان کے بقول مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کسی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ معاشی طور پر مشرق وسطیٰ کا خطہ پاکستان کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔
نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے بحری سفر کے لیے پاکستان کے سمندری حدود استعمال ہوتی ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں پاکستانی خلیجی ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
تاہم نجم رفیق نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ مشرق وسطیٰ کی کشیدگی فوری طور پر پاکستان پر عسکری طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
ان کے بقول عسکری حوالوں سے پاکستان کے لیے کوئی بڑی مشکل کھڑی نہیں ہو سکتی کیونکہ پاکستان کا اس تنازع میں براہ راست شامل ہونے سے گریز بہتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی پالیسی اور موقف یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں پاکستان سعودی عرب اور ایران سے تعلقات میں توازن رکھنے کا خواہاں ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھتی ہے تو پاکستان کے لیے اس تنازع میں ریاض کا ساتھ دینے کے لیے سعودی عرب کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تجزیہ کار نجم رفیق مزید کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے سعودی عرب کے دباؤ کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہوگا۔ حال ہی میں کوالالمپور کانفرنس میں سعودی عرب کے تحفطات کی وجہ سے پاکستان کی شرکت نہ کرنا اسی کا مظہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہوتا ہے تو یہ اس بات کا عملی مظاہرہ ہو گا کہ پاکستان مکمل طور سعودی کیمپ میں شامل ہو گیا ہے جسے ایران اچھی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ پاکستان کے لیے غیر جانب دار رہنا ہی اس کے مفاد میں ہوگا۔
تاہم ان کے بقول اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھتی ہے اور امریکہ کی طرف سے واشنگٹن کا ساتھ دینے کے لیے کوئی دباؤ نہ آیا تو پاکستان کے لیے بڑے مضمرات نہیں ہوگے جیسے کہ افغانستان کے حوالے سے ماضی میں پاکستان سے بعض سہولت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
'پاکستان کسی فریق کی طرف داری نہیں کرے گا'
تاہم پاکستان کی فوج کی ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ پاکستان غیر جانب دار کردار ہی ادا کرے گا جبکہ پاکستان دونوں فریقین کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دے رہا ہے۔ مستقبل میں پاکستان کسی فریق کی طرف داری بھی نہیں کرے گا۔
امجد شعیب کے بقول اگر ایران پر کوئی براہ راست حملہ ہوتا ہے تو ایسے میں پاکستان کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں بڑی تعداد میں اہل تشیع افراد ہیں جن کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے اور علاقائی طاقتوں کو اس حوالے سے تشویش ہو رہی ہے کہ مشرق میں جنگ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی میں کشیدگی بڑھنے کے اثرات افغانستان میں ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکہ وہاں موجود ہے جب کہ ایران کے افغانستان میں مفادات ہیں۔
تاہم امجد شعیب نے اس امکان کو رد کیا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی تنازع براہ راست جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
ان کے بقول امریکہ کے خطے اور افغانستان کے مفادات کے پیش نظر اس کے سنگین مضمرات ہو سکتے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ جنرل سلیمانی کی ہلاکت جنوبی ایشیائی خطے پر نمایاں اثر ڈال سکتی ہے۔ ایران کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جہاں 12000 امریکی فوجی موجود ہیں۔ ایران کی سرحد پاکستان سے بھی ملتی ہے جس کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ جب کہ بھارت اور امریکہ کے گہرے تعلقات ہیں۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت کے مشرق وسطیٰ سے توانائی، اقتصادی اور دیگر نوعیت کے مفادات وابستہ ہیں۔
کشیدگی سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان
اقتصادی امور کے ماہر عابدی سلہری کا کہنا ہے کہ اگر ایران امریکہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس صورت میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جو پاکستان کی معیشت پر اثر انداز ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عابد سلہری نے کہا کہ پاکستان ایک تیل درآمد کرنے والا ملک ہے۔
امریکہ فضائی کارروائی کے بعد عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں دو ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوا ہے جس کے ساتھ تیل کی قیمت 68 ڈالرز فی بیرل ہو گئی ہے۔
عابد سلہری کے بقول پاکستان بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ تیل کی قیمت بڑھنے سے پاکستان کے درآمدی بل میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ اس کی وجہ سے پاکستان میں توانائی بشمول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس سے پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔
ان کے بقول مشرقی وسطی میں کشیدگی کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
تاہم عابد سلہری نے کہا کہ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر پاکستان مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کر سکتا ہے تو پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
ان کے خیال میں پاکستان کے ساتھ چین کو بھی مشرق وسطی کی صورت حال پر تشویش ہو گی۔ چین اور پاکستان کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس آگ کو یہیں روکیں۔ چین کے تیل کی ترسیل اسی خطے سے ہوتی ہے اور اگر یہ خطے متاثر ہوتا ہے تو چین پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
عابد سلہری کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 50 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں مشرق وسطیٰ میں مقیم ہیں، وہاں کی صرت حال بگڑنے پر ان افراد کے روزگار کے مواقع متاثر ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان میں سے کچھ لوگوں کو بھی واپس بھیجا جاتا ہے تو یہ صورت حال اندرونی طور پاکستان کی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔