واشنگٹن —
عراق میں امریکہ کےمحکمہ دفاع کی معاونت کرنے والی ایک نجی سیکیورٹی کمپنی نے عراقی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے مقدمے سے بچنے کےلیے سابق قیدیوں کو 50 لاکھ ڈالر سے زائد ہرجانہ ادا کردیا ہے۔
عراق کی بدنامِ زمانہ 'ابو غریب جیل' کے 72 سابق قیدیوں نے 'ایل-3 سروسز' نامی امریکی سیکیورٹی کمپنی کے خلاف ایک امریکی وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا جس میں کمپنی پر تشدد اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
مذکورہ کمپنی کے اہلکار عراق جنگ کے دوران میں مشتبہ افراد کی گرفتاریوں اور ان سے تفتیش میں امریکی فوج کی مدد کرنے پر مامور تھے۔
سابق قیدیوں نے اپنی درخواست میں 'ایل-3 سروسز' کے اہلکاروں پر جیل میں دورانِ تفتیش انہیں مارنے پیٹنے، زبرستی برہنہ کرنے، سخت درجہ حرارت میں رکھنے اور طویل عرصے تک زبردستی جگانے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے الزامات لگائے تھے۔
سیکیورٹی کمپنی نے – جس نے بعد ازاں اپنا نام تبدیل کرکے 'اینگیلٹی کارپوریشن' رکھ لیا تھا – عدالت سے اپنے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی تھی۔
کمپنی کا موقف تھا کہ اس کے اہلکار عراق میں "قابض فوجوں" کا حصہ تھے جس کے باعث ان پر فوجداری مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔
تاہم 2010ء میں ایک وفاقی عدالت نے کمپنی کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی جب کہ گزشتہ برس ایک دوسری عدالت نے کمپنی کی جانب سے دائر کردہ نظرِ ثانی کی درخواست پر بھی پچھلا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں مقدمہ دائر کرنے والے سابق قیدیوں نے کمپنی کی جانب سے 52 لاکھ ڈالر سے زائد ہرجانے کی ادائیگی کی صورت میں مقدمہ واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
عراق کی 'ابو غریب جیل' میں قیدیوں کے ساتھ امریکی فوجیوں کی بدسلوکی کی تصاویر پہلے پہل 2004ء میں منظرِ عام پر آئی تھیں۔
ان تصاویر کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کی جانب سے شدید ردِ عمل اور احتجاج سامنے آیا تھا جس کے بعد امریکہ میں فوج کے 11 اہلکاروں کے خلاف مقدمات بھی چلائے گئے تھے۔
عراق کی بدنامِ زمانہ 'ابو غریب جیل' کے 72 سابق قیدیوں نے 'ایل-3 سروسز' نامی امریکی سیکیورٹی کمپنی کے خلاف ایک امریکی وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا جس میں کمپنی پر تشدد اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
مذکورہ کمپنی کے اہلکار عراق جنگ کے دوران میں مشتبہ افراد کی گرفتاریوں اور ان سے تفتیش میں امریکی فوج کی مدد کرنے پر مامور تھے۔
سابق قیدیوں نے اپنی درخواست میں 'ایل-3 سروسز' کے اہلکاروں پر جیل میں دورانِ تفتیش انہیں مارنے پیٹنے، زبرستی برہنہ کرنے، سخت درجہ حرارت میں رکھنے اور طویل عرصے تک زبردستی جگانے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے الزامات لگائے تھے۔
سیکیورٹی کمپنی نے – جس نے بعد ازاں اپنا نام تبدیل کرکے 'اینگیلٹی کارپوریشن' رکھ لیا تھا – عدالت سے اپنے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی تھی۔
کمپنی کا موقف تھا کہ اس کے اہلکار عراق میں "قابض فوجوں" کا حصہ تھے جس کے باعث ان پر فوجداری مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔
تاہم 2010ء میں ایک وفاقی عدالت نے کمپنی کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی جب کہ گزشتہ برس ایک دوسری عدالت نے کمپنی کی جانب سے دائر کردہ نظرِ ثانی کی درخواست پر بھی پچھلا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں مقدمہ دائر کرنے والے سابق قیدیوں نے کمپنی کی جانب سے 52 لاکھ ڈالر سے زائد ہرجانے کی ادائیگی کی صورت میں مقدمہ واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
عراق کی 'ابو غریب جیل' میں قیدیوں کے ساتھ امریکی فوجیوں کی بدسلوکی کی تصاویر پہلے پہل 2004ء میں منظرِ عام پر آئی تھیں۔
ان تصاویر کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کی جانب سے شدید ردِ عمل اور احتجاج سامنے آیا تھا جس کے بعد امریکہ میں فوج کے 11 اہلکاروں کے خلاف مقدمات بھی چلائے گئے تھے۔