امریکہ نے ماحولیاتی تبدیلی کے پیرس معاہدے سے علیحدگی کے لیے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کو آگاہ کر دیا ہے، لیکن اس نے ایسی ممکنات کو کھلا رکھا ہے کہ اگر سمجھوتے کی شقیں زیادہ موافق ہوتی ہیں تو وہ دوبارہ اس میں شامل ہو سکتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے جمعہ کو کہا کہ وہ اس معاہدے کے انخلا کے عمل کے دوران ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق بین الاقوامی مذاکرات میں حصہ لیتا رہے گا۔
بیان کے مطابق مذاکرات میں امریکہ کی شمولیت سے "امریکی مفادات کو تحفظ اور انتظامیہ کے لیے مستقبل کی پالیسی کے لیے راستے کھلے رکھنے کو یقینی بنانا ہے۔"
مزید برآں کہا گیا کہ "امریکہ ماحولیاتی پالیسی کے مطابق مضر گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے متوازن رجحان کی حمایت کرتا ہے لیکن لیکن ساتھ ہی وہ توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اقتصادی ترقی کے فروغ کا خواہاں بھی ہے۔"
محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ "پیرس معاہدے پر دوبارہ سے بات چیت کے لیے آمادہ تھے اگر امریکہ کو ان شرائط کی نشاندہی کرنے دی جاتی جو کہ اس کے زیادہ مفاد، کاروبار، کارکنان، عوام اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے مفاد میں ہو۔"
ٹرمپ نے جون میں اس معاہدے سے نکلنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سمجھوتہ "امریکی عوام کے لیے انتہائی غیر منصفانہ ہے۔" ان کا استدلال تھا کہ اس معاہدے سے امریکہ کو کھربوں ڈالر کا خمیازہ بھگتنے کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبے میں امریکی کاروبار اور روزگار کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔