امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایسی قرار داد کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے جس میں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی حوالگی سے متعلق واضح اور لازمی ’ڈیدلائنز‘ کا تعین کیا جائے۔
برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے پیر کے روز کہا کہ یہ کام مشکل اور پیچیدہ ہے، لیکن اُنھوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
’’یہ اسد حکومت ہی ہے جس نے ان ہتھیاروں کو ذخیرہ کیا اور انھیں شام کی عوام کے خلاف متواتر استعمال کیا، لہذا معاہدے پر مکمل عمل درآمد سے متعلق دباؤ بھی اس پر ہی ہے۔‘‘
ہیگ نے کہا کہ اگر شام اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو عالمی برادری کو اس کے محاسبے کے لیے تیار رہنا چاہیئے اور ’’ہمارے تینوں ممالک (برطانیہ، فرانس اور امریکہ) یقیناً ایسا کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔‘‘
شام نے کہا ہے کہ حکومت کی فورسز نہیں بلکہ باغی جنگجوؤں نے گزشتہ ماہ دمشق کے قریب مہلک حملے میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
ہیگ نے اپنے فرانسیسی اور امریکی ہم منصبوں، لوران فابیوس اور جان کیری، کے ساتھ پیرس میں ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں یہ بیان دیا۔
اس ملاقات سے چند روز قبل امریکہ اور روس نے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت شام کو کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا گیا۔ شام کی حکومت نے اس منصوبے پر عمل درآمد کا یقین دلایا تھا۔
کیری نے پیر کو کہا کہ شامی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کی قرار داد پر مکمل عمل درآمد سے ہٹ کر کوئی صورتِ حال قابلِ قبول نہیں ہوگی۔
اُنھوں نے صدر اسد کی حامی فورسز سے کیمیائی ہتھیار تحویل میں لینے سے بڑھ کر کوئی پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
’’ہم سمجھتے ہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں سے محروم ہونے کے بعد بھی اُن (صدر بشار الاسد) کے پاس توپ خانہ اور طیارے موجود رہیں گے جو وہ اپنی عوام کے خلاف بلا امتیاز استعمال کرتے ہیں۔ ہم اپنی قوت کے مطابق وہ سب کچھ کرتے رہیں گے جس سے سیاسی حل کی جانب پیش رفت ہو سکے جو تشدد کے خاتمے کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں شام کے بحران سے متعلق ماضی کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں، کیوں کہ روس اور چین نے کسی قسم کی بیرونی مداخلت کی مخالفت کر دی تھی۔
برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے پیر کے روز کہا کہ یہ کام مشکل اور پیچیدہ ہے، لیکن اُنھوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
’’یہ اسد حکومت ہی ہے جس نے ان ہتھیاروں کو ذخیرہ کیا اور انھیں شام کی عوام کے خلاف متواتر استعمال کیا، لہذا معاہدے پر مکمل عمل درآمد سے متعلق دباؤ بھی اس پر ہی ہے۔‘‘
ہیگ نے کہا کہ اگر شام اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو عالمی برادری کو اس کے محاسبے کے لیے تیار رہنا چاہیئے اور ’’ہمارے تینوں ممالک (برطانیہ، فرانس اور امریکہ) یقیناً ایسا کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔‘‘
شام نے کہا ہے کہ حکومت کی فورسز نہیں بلکہ باغی جنگجوؤں نے گزشتہ ماہ دمشق کے قریب مہلک حملے میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
ہیگ نے اپنے فرانسیسی اور امریکی ہم منصبوں، لوران فابیوس اور جان کیری، کے ساتھ پیرس میں ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں یہ بیان دیا۔
اس ملاقات سے چند روز قبل امریکہ اور روس نے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت شام کو کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا گیا۔ شام کی حکومت نے اس منصوبے پر عمل درآمد کا یقین دلایا تھا۔
کیری نے پیر کو کہا کہ شامی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کی قرار داد پر مکمل عمل درآمد سے ہٹ کر کوئی صورتِ حال قابلِ قبول نہیں ہوگی۔
اُنھوں نے صدر اسد کی حامی فورسز سے کیمیائی ہتھیار تحویل میں لینے سے بڑھ کر کوئی پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
’’ہم سمجھتے ہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں سے محروم ہونے کے بعد بھی اُن (صدر بشار الاسد) کے پاس توپ خانہ اور طیارے موجود رہیں گے جو وہ اپنی عوام کے خلاف بلا امتیاز استعمال کرتے ہیں۔ ہم اپنی قوت کے مطابق وہ سب کچھ کرتے رہیں گے جس سے سیاسی حل کی جانب پیش رفت ہو سکے جو تشدد کے خاتمے کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں شام کے بحران سے متعلق ماضی کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں، کیوں کہ روس اور چین نے کسی قسم کی بیرونی مداخلت کی مخالفت کر دی تھی۔