ہر امریکی محلے میں ایک خاتون ایسی ضرور ہوتی ہیں جنھیں سب بچے امی کہتے ہیں۔اس رہائشی علاقے میں وہ امّی Tammy Renault ہیں۔Renault نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اس مخصوص علاقے میں سب بچوں کی امی بن جائیں گی۔ یہ ریاست ٹینے سی کے قصبے لبنان میں ٹمبر لائن کیمپ گرائونڈہے۔ یہاں 20 سے زیادہ بے گھر خاندان رہ رہے ہیں۔ ٹمبر لائن ایسی جگہ ہے جہاں آ پ ایک یا دو راتیں گزارسکتے ہیں لیکن Renault گھرانہ تو یہاں گذشتہ اگست سے رہ رہا ہے جب انھیں اپناتین بیڈ روم کا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔
Tammy کہتی ہیں کہ ان کے بے گھر ہونے کی ابتدا دو برس قبل اس وقت ہوئی جب ان کے شوہر Troy کا مکانوں کی تعمیر کا کام جاتا رہا۔ وہ کہتی ہیں کہ تقریباً ایک سال تک تو ہم کسی نہ کسی طرح کام چلاتے رہے لیکن جب معیشت خراب ہونے لگی تو پھر ایسا وقت آیا کہ میرے شوہر کو کام ملنا بند ہو گیا۔
کہتے Troy ہیں کہ ہمارا ہاتھ اتنا تنگ ہو گیا کہ اب ہمیں کچھ مشکل فیصلے کرنا تھے۔ انھوں نے بتایا’’آ پ سوچتے ہیں کہ کیا ہم مکان کی قسط ادا کر دیں اور پانی، بجلی اور گیس کے بِل ادا نہ کریں لیکن کب تک یہ سلسلہ چلتا۔ آخر ہم مکان کی قسط کی ادائیگی میں اتنے پیچھے ہو گئے کہ مکان ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا۔‘‘
Renault گھرانہ اپنے پانچ بیٹوں سمیت اس سفری ٹریلر میں رہ رہا ہے جو کسی نے عطیے کے طور پر دیا ہے۔ پہلے ان کے پاس رہنے کی 170 میٹر جگہ تھی۔ اب یہ کم ہو کر صرف 20 میٹر رہ گئی ہے۔ لیکن Tammy کہتی ہیں کہ مسئلہ جسمانی بے آرامی کا نہیں ہے۔ ہمیں اب پتہ چل رہا ہے بے گھر ہونے کے سماجی اثرات کیا ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’لوگ ہم پر آوازے کستے ہیں، ہماری بے عزتی کرتے ہیں۔ جو لوگ آ پ کو اچھے وقتوں میں جانتے تھے وہ اب آپ سے بات کرنا بھی نہیں چاہتے، کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ سے کیا کہیں اور جہاں آپ رہ رہے ہیں اس کے تصور سے انہیں ڈر لگتا ہے۔‘‘
مقامی کمیونٹی نے بھی کچھ سبق سیکھے ہیں۔ Liz Reese نے حال ہی میں لبنان میں بے گھر لوگوں کے لیے پہلا شیلٹر کھولا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ شروع میں شہر کے لیڈروں کا خیال تھا کہ شیلٹر غیر ضروری ہے لیکن جب سے یہ جگہ کھلی ہے گذشتہ چھ مہینوں میں ہر رات یہاں گنجائش سے زیادہ لوگ سونے کی جگہ کی تلاش میں آ جاتے ہیں۔ انھیں بعض اوقات لوگوں کو ہوٹلوں میں یا ٹمبر لائن جیسی کیمپ گراونڈز میں بھیجنا پڑا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے پاس روزانہ رہنے کی جگہ تلاش کرنے والوں کی سات سے 14 فون کالز آتی ہیں۔ معیشت اور روزگار کی حالت اتنی خراب ہے کہ ان کالز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بیشتر امریکی سمجھتے ہیں کہ بے گھر لوگوں کا تعلق معاشرے کے غریب ترین طبقے سے ہوتا ہے یا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو شراب نوشی یا منشیات کی لت میں گرفتار ہوتے ہیں۔ Reese کہتی ہیں کہ میرا واسطہ جن بے گھر لوگوں سے پڑتا ہے وہ اس قسم کے لوگ نہیں ہوتے۔ انھوں نے بتایا’’ان میں ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ماسٹرز کی ڈگری ہے یا کالج میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جنھوں نے اپنا ہائی اسکول ادھورا چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے پاس ایسے لوگ بھی آئے ہیں جو تین سے چار لاکھ ڈالر کے مکانوں میں رہ چکے تھے۔‘‘
سماجی علوم کے ماہر اور یونیورسٹی آف سینٹرل فلوریڈا کے پروفیسر جیمز رائٹ کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ وہ ایک اور غلط فہمی دور کرتے ہیں کہ تمام بے گھر لوگ آوارہ گرد اور بھک منگے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیشتر بے گھر لوگ اپنے دن کام کرتے یا کام کی تلاش کرتے گزارتے ہیں۔ آپ انہیں اکثر ان مقامات پر پائیں گے جہاں روزانہ کی مزدوری کرنے والے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ بے گھر لوگوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کام کرنے والے غریب لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے اور موجودہ اقتصادی بحران کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی ایک بہت اچھی مثال Troy Renault ہیں۔ انھیں کبھی کبھی کام مل جاتا ہے لیکن اتنا کام نہیں ملتا کہ وہ کسی نئے گھر میں جا سکیں۔ وہ اپنا بیشتر وقت کیمپ گراونڈ میں اپنے ہمسایوں کی چیزیں مفت مرمت کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح ان کا وقت آسانی سے گزر جاتا ہے اور دوسرے لوگوں کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔
Tammy Renault مذہبی خیالات کی خاتون ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں جہاں کہیں بھی رہ رہی ہوں مجھے پکا یقین ہے کہ خدا ہم سب کی مشکل آسان کرے گا۔ Troy Renault کہتے ہیں کہ وہ مستقبل قریب میں کیمپ گراونڈ نہیں چھوڑ سکتے لیکن وہ جانتے ہیں کہ امریکیوں کے جوہر اسی وقت کھلتےہیں جب ان پر مشکل وقت پڑتا ہے ۔