رسائی کے لنکس

کابل پر طالبان کا قبضہ، امریکی ایوانِ نمائندگان کے مجوزہ بل سے پاکستان کا نام حذف کر دیا گیا


امریکہ اور اتحادیوں نے افغانستان سے انخلا سے قبل اپنے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں افغان باشندوں کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کے لیے بیرون ملک منتقل کیا۔ فائل فوٹو
امریکہ اور اتحادیوں نے افغانستان سے انخلا سے قبل اپنے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں افغان باشندوں کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کے لیے بیرون ملک منتقل کیا۔ فائل فوٹو

امریکی ایوان نمائندگان کے ایک مجوزہ بل میں سے پاکستان سے متعلق ان منفی حوالوں کو حذف کر دیا گیا ہے جس میں طالبان کی طرف سے رواں سال اگست میں کابل کا کنٹرول حاصل کرنے میں پاکستان کے ممکنہ کردار کا جائزہ لینے کی تجویز دی گئی تھی۔

پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہونے والے رپورٹ کے مطابق امریکی نیشنل ڈیفنس ایکٹ 2022 کے اصل متن میں امریکہ کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے لیے کانگرس کی متعلقہ کمیٹی کے سامنے اس تصدیق کو ضروری قرار دیا گیا تھا کہ پاکستان کی مدد کرنا امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔

لیکن ڈان کی رپورٹ کے مطابق ترمیم شدہ بل میں پاکستان کا نام حذف کرتے ہوئے اس کی جگہ 'افغانستان کے قریب کوئی بھی ملک 'کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی کانگرس میں اس سے پہلے پیش کیے گئے بل کے مسودے میں طالبان کی طرف سے کابل کا کنڑول کا حاصل کرنے میں پاکستان کے کردار کا تعین کرنے کی تجویز دی گئی تھی، لیکن ترمیم شدہ بل کے مسودے میں پاکستان کا خارج کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ قانون سازی ابھی ڈرافٹ کی شکل میں ہے جس میں ترمیم اور تبدیلی کا عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس پر ووٹںگ نہیں ہو جاتی۔ اگرچہ اس وقت پاکستان کا نام مسودے سے نکال دیا گیا ہے، تاہم اس بل پر قانون سازوں کی جانب سے ووٹ ڈالے جانے تک مسودے کی زبان میں کسی قسم کی مزید تبدیلی خارج از امکان نہیں ہے۔

اسلام آباد کی طرف سے تاحال امریکی کانگرس کے مجوزہ بل میں منفی حوالوں سے منسلک پاکستان کا نام حذف کرنے پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں پائی جانے والی بظاہر سرد مہری کے پیش نظر اسلام آباد اسے مثبت انداز میں دیکھے گا۔

پاکستان کے سابق سفارت کار شاہد امین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری میں کمی ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود باہمی تعلقات میں بعض مسائل موجود ہیں۔ ان کے بقول دوسری جانب واشنگٹن میں ایک تاثر موجود ہے کہ افغانستان مین طالبان کی کامیابی میں پاکستان نے کردار ادا کیا ہے۔

لیکن ان کے بقول پاکستان اس تاثر کو رد کرتا ہے اور اس کا یہ کہنا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کی وجوہات کا تعلق افغانستان کے اندرونی معاملات سے ہے اور پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھرانا درست نہیں ہے۔

پاکستان کے سابق سفارت کار شاہد امین کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس میں پیش کیے گئے مجوزہ بل میں پاکستان سے متعلق منفی حوالوں کو حذف کرنا اس بات کا عندیہ کہ امریکہ میں اس تاثر میں کمی آ رہی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ کانگریس کے مجوزہ بل میں پاکستان کا نام حذف کرنے کو اسلام آباد مثبت انداز میں دیکھے گا۔

نجم رفیق کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ فعال تعلقات رکھنے کا خواہاں ہے۔

سابق سفارت کار شاہد امین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ دنوں میں سفارتی روابط میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ کے بعض ممتاز سینٹرز کا حالیہ پاکستان کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

شاہد امین کے مطابق اب یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ان سفارتی رابطوں کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں پائی جانے والی دشواریاں دور ہوں گی۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تاریخی تعلقات رہے ہیں اور ان میں اتار چڑھاؤ کے باوجود امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسر ے کی ضرورت رہے گی۔

شاہد امین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے جمہوریت سربراہی کانفرنس میں شرکت نہیں کی، لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان نے جو بیان دیا ہے، وہ امریکہ کے ساتھ قریبی روابط جاری رکھنے کے اس کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے سخت سیکیورٹی انتظامات کے باوجود داعش کے حملے جاری ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے سخت سیکیورٹی انتظامات کے باوجود داعش کے حملے جاری ہیں۔

شاہد امین کے بقول افغانستان سے انخلا کے باوجود امریکہ کو پاکستان کی ضرورت رہے گی تاکہ افغانستان میں کوئی ایسی صورت حال پیدا نہ ہو جو امریکہ کے مفادات کے منافی ہو۔

جب کہ بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کا نام مجوزہ بل میں سے حذف کر دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود بل میں ایک وسیع تناظر کی اصطلاح استعمال کی ہے، جس میں نام لیے بغیر افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں پاکستان، ایران اور چین بھی ہو سکتے ہیں۔
لیکن نجم رفیق کے خیال میں یہ اس جانب اشارہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر رکھنا چاہتا ہے، لیکن واشنگٹن کو پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعلقات پر بھی تحفظات رہیں گے۔

تجزیہ کار نجم رفیق کے مطابق بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھنا پاکستان کے ایک چیلنج رہے گا، کیونکہ ایک طرف چین پاکستان کا قریبی اسٹریٹجک اتحادی ہے، تو دوسری جانب معیثت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا انحصاربین الاقوامی مالیاتی اداروں پر ہے، جن پر امریکہ کا نمایاں اثر و سوخ ہے۔

XS
SM
MD
LG