امریکی سپریم کورٹ نےریاست ایریزونا کے تارکینِ وطن سےمتعلق ایک متنازع قانون کی سماعت شروع کردی ہے۔
قانون کے ذریعے امریکی شہریت نہ رکھنے والے تمام تارکینِ وطن کو ریاست کی حدود میں ہر وقت اپنے ساتھ شناختی دستاویزات رکھنے کا پابند کیا گیاہے۔ اس کےعلاوہ قانون کے تحت ریاست میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کی جانب سے ملازمت کی حصول کی کوششوں کو بھی قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔
مذکورہ قانون 2010ء میں ایریزونا کے ری پبلکن گورنر جان بریورکے دستخط سے نافذ ہوا تھا اور قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان پہلے روز سے اس پر بحث چلی آرہی ہے۔
اب امریکی سپریم کورٹ کے آٹھ جج یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا یہ قانون 'امیگریشن' سے متعلق فیصلہ سازی کے وفاق کو حاصل اختیارات سے متصادم ہے یا نہیں۔
عدالت ِعظمیٰ کی نویں جج جسٹس ایلینا کگان نے مقدمے کی سماعت سے معذرت کرلی ہے۔
کمرہ عدالت سے آنے والی اطلاعات کے مطابق ابتدائی سماعت کے دوران میں عدالت کے کئی ججوں نے غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف ایریزونا کے ریاستی حکام کی کاروائیوں کی حمایت کا اظہار کیا۔
ریاستی انتظامیہ کے حق میں رائے کا اظہار کرنے والوں میں جسٹس اینتھونی کینیڈی بھی شامل تھے جن کا ووٹ اس طرح کے مقدمات میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ (جسٹس کینیڈی دیگر ججوں کی طرح روایت پسند یا لبرل ہونے کی واضح شناخت نہیں رکھتے لہذا اسی لیے ان کا ووٹ ایسے مقدمات میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرجاتا ہے جن میں دونوں طبقات کے درمیان واضح اختلافات موجود ہوں۔)
قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایریزونا کے سرحدی ریاست ہونے کے ناتے تارکینِ وطن کے معاملے پر مقامی انتظامیہ کی جانب سے کسی فوری اقدام کی اشد ضرورت تھی۔
قانون کے حامی وفاقی انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ریاست میں غیر قانونی تارکینِ وطن کا داخلہ روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہی تھی جس کے باعث ریاستی حکومت کو حرکت میں آنا پڑا۔
اس کے برعکس ناقدین کا موقف ہے کہ مذکورہ قانون ریاست میں نسلی امتیازکو فروغ دے رہا ہے۔
اوباما انتظامیہ کا موقف رہا ہے کہ 'امیگریشن' سے متعلق قانون سازی وفاقی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور تارکینِ وطن کے مسئلے کو وفاقی سطح پر ہی حل کیا جانا چاہیے۔
امکان ہے کہ یہ معاملہ رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل امیدواران کی انتخابی مہم کا بھی اہم موضوع بنا رہے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جون کے اختتام سے قبل مقدمے کا فیصلہ متوقع ہے۔