سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر، ایری زونا کے غیر قانونی امیگریشن کے قانون کے حامیوں اور مخالفین دونوں نے اپنے احساسات کا اظہار صرف گیتوں سے نہیں بلکہ دعاؤں سے بھی کیا۔
عمارت کے اندر، ججوں نے ریاست ایری زونا کے قانون کی حمایت اور مخالفت میں زبانی دلائل سنے۔ اس قانون کا مقصد تقریباً چار لاکھ تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی کرنا ہے جو ریاست میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے ہیں۔
ایری زونا کے قانون کی ایک اہم شق کے تحت پولیس افسروں پر لازم ہے کہ کہ وہ جن لوگوں کو روکیں یا حراست میں لیں اور ان کے بارے میں انہیں شبہ ہو کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، تو وہ ان کی قانونی حیثیت کو چیک کریں۔ اس قانون کے ایک اور حصے کے مطابق، امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کے لیے کوئی ملازمت کرنا یا کوئی کام تلاش کرنا جرم ہے ۔
سپریم کورٹ کے باہر اس قانون کی حمایت کرنے والوں میں ریاست میری لینڈ کے ایک پولیس افسر کین موریو بھی شامل تھے۔ انھوں نے کہا ’’دوسرے ملکوں سے یہاں آنے والوں کی تعداد کو محدود کرنا ضروری ہے ۔ یہ ہمارے ملک کا صرف حق ہی نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری بھی ہے کہ امیگریشن پر معقول حدود نافذ کی جائیں۔ اگر یہاں ایک کروڑ دس لاکھ یا ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ غیر قانونی طور پر موجود ہیں، تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
ایری زونا کے قانون کے حامی یہ بھی کہتے ہیں کہ ریاست اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے پر اس لیے مجبور ہوئی کیوں کہ وفاقی حکومت ایسا کرنے میں نا کام ہو گئی ۔
ریاست ورجینیا کے جارج پوپ نے بھی اس قانون کی حمایت میں سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرہ کیا ۔ انھوں نے کہا’’اس وقت یہ مسئلہ ریاستوں کے حقوق اور وفاقی حکومت کے دائرۂ اختیار کا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی انتظامیہ ہماری سرحد کی صورتِ حال سے نمٹ نہیں رہی ہے اور امیگریشن قابو سے باہر ہو گیا ہے۔‘‘
اوباما انتظامیہ نے ریاست ایری زونا پر مقدمہ دائر کر دیا ہے، اور زیریں عدالتوں میں اس قانون کے بعض حصوں پر عمل درآمد روک دیا ہے ۔ انتظامیہ کی دلیل یہ ہے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہے، انفرادی ریاستوں پر نہیں۔
لیکن زبانی دلائل کے دوران، کئی ججوں نے ایسا اشارہ دیا کہ وہ ایری زونا کے اس حق کو درست قرار دے سکتےہیں کہ پولیس جن لوگوں کو روکتی ہے، ان کی ملک میں موجودگی کی قانونی حیثیت کو چیک کر سکتی ہے ۔
قانون کے مخالفین بھی اچھی خاصی تعدادمیں سپریم کورٹ کے سامنے موجود تھے۔ ان میں یونائیٹد چرچ آف کرائسٹ کی منسٹر ریورنڈ ماری کاسٹیلانز بھی شامل تھیں جو کیوبا سے امریکہ اس وقت آئی تھیں جب وہ چھوٹی سی بچی تھیں۔ انھوں نے کہا’’میں جب اس ملک میں آئی تو مجھے کھلے دل سے خوش آمدید کہا گیا۔ مجھے ہر قسم کے مواقع فراہم کیے گئے کیوں کہ امریکی حکومت کیوبا کی حکومت سے نفرت کرتی ہے ۔ لیکن میں آ پ کو بتاتی ہوں کہ پھر کیا ہوا۔ میرا گھرانہ خوب پھلا پھولا۔ ہم سب کالج گئے ۔ ہم سب نے خوب ترقی کی ۔ جب آپ کسی دوسرے ملک سے آئے ہوئے لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں تو یہی ہوتا ہے ۔ وہ خوب ترقی کرتے ہیں۔‘‘
ایری زونا کے قانون کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر پولیس کے لیے لوگوں کی قانونی حیثیت چیک کرنا ضروری قرار دے دیا جائے، تو اس کے نتیجے میں نسلی بنیاد پر امتیازی سلوک شروع ہو جاتا ہے۔ ریاست الی نوائے کے ڈیموکریٹک کانگریس مین لیوس گٹیرز کہتے ہیں’’ہمار ے ملک میں لوگوں کے ساتھ نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنا خلافِ قانون ہے ۔ آج ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ امریکی شہریوں کے اس حق کو قائم رکھے گی کہ سفر کے دوران کسی کو ان کی جلد کی رنگت، اور ان کے لب و لہجے کی بنیاد پر، انہیں روکنے اور ان سے پوچھ گچھ کرنے کا حق نہ ہو؟‘‘
غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے، یہ 2012 کے صدارتی انتخاب کی مہم کا ایک اہم سیاسی مسئلہ ہے ۔ ملک میں ہسپانوی زبان بولنے والے ووٹروں کے لیے ، جن کی آبادی امریکہ میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔
کئی اور ریاستوں نے ریاست ایری زونا کے قانون سے ملتے جلتے قوانین منظور کیے ہیں، اور ان سب کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا شدت سے انتظار ہے ۔ توقع ہے کہ سپریم کورٹ جون کے آخر میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔