امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان کے سیاسی تصفیے کیلئے بامعنی مذاکرات کا عمل امریکہ کے اس اصرار پر تعطل کا شکار ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے دو فوجی اڈے برقرار رکھے گا۔
اس بات کا انکشاف سابق طالبان اہلکار وحید مزدہ نے کیا ہے جو مسلسل طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کم سے کم بگرام اور شورابک میں موجود دو امریکی اڈوں کی موجودگی برقرار رکھنے کو تسلیم کرلیں۔ لیکن، طالبان یہ شرط تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
وحید مزدہ کا کہنا ہے کہ طالبان لیڈر امریکی فوجیوں کی محض علامتی موجودگی سے زیادہ کچھ بھی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں جو امریکہ کے سفارتی مشن کیلئے ضروری ہو۔
واشنگٹن میں اعلیٰ سطحی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ افغانستان میں بعض فوجی اڈوں کی موجودگی امریکہ کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
امریکی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل اور پینٹاگون کے سابق مشیر کرسٹوفر کولینڈا اس سال دوحہ میں منعقد ہونے والے طالبان کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات میں شریک تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان میں موجود امریکی فوجوں کو قابض فوج سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں۔
کرسٹوفر کولینڈا نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ طالبان امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کو وہاں جاری لڑائی کی اہم وجہ سمجھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی قسم کے امن سمجھوتے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجی حرکت کرتے دکھائی دیں۔
اُنہوں نے کہا کہ طالبان نے اس بات پر کسی قدر آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ افغان فوجیوں کی تربیت کیلئے کچھ غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں۔ تاہم، طالبان کا کہنا ہے کہ ایسا صرف اُس صورت میں ممکن ہے جب افغانستان میں پُر امن سمجھوتے کے بعد نئی حکومت تشکیل پائے جس میں طالبان بھی شامل ہوں۔
دوحہ میں کولینڈا اور امریکی سفارتکار روبن رافیل نے طالبان سے غیر رسمی مذاکرات کئے جن کے بعد جنوبی اور وسطی ایشیا کیلئے امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے جولائی میں دوحہ میں ہی طالبان سے ملاقات کی۔ اس بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ یہ ملاقات طالبان کی طرف سے افغان حکومت کے بجائے امریکہ سے براہ راست بات چیت کی خواہش پر منعقد ہوئی۔ طالبان افغان حکومت کو امریکہ کی ’کٹھ پتلی‘ حکومت تصور کرتے ہیں۔
رائیٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دور کیلئے تین یا چار رکنی وفد تشکیل دینے پر کام شروع کر دیا ہے۔ تاہم، طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے اگلے دور سے قبل گرفتار ہونے والے طالبان کی رہائی بنیادی شرط ہوگی۔