واشنگٹن —
مصر میں فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت اور معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے درمیان جاری کشیدگی ختم کرانے کے لیے امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ اور کانگریس کے دو نمایاں ارکان قاہرہ پہنچے ہیں۔
امریکی نائب وزیرِ خارجہ ولیم برنز نے پیر کو عبوری حکومت کے عہدیداران سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد وہ محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے اسیر رہنما خیرت الشاطر سے ملے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکی نائب وزیرِ خارجہ اخوان کے رہنما سے ملاقات کے لیے قاہرہ کے جنوبی علاقے میں قائم اس جیل گئے جہاں مصر کی عبوری حکومت نے انہیں قید میں رکھا ہوا ہے۔
مصر کے ایک اخبار 'المصری الیوم' کے مطابق یورپی یونین کے نمائندے برنارڈینو لیون اور مصر کی مسلح افواج کے کچھ اعلیٰ افسران بھی امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے ہمراہ تھے۔
خیرت الشاطر 'اخوان المسلمون' کے نائب سربراہ ہیں اور انہیں عرب دنیا کی اس سب سے بڑی اور منظم اسلامی جماعت کے سیاسی امور کا نگران قرار دیا جاتا ہے۔
الشاطر کو مصر کی فوجی انتظامیہ نے محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد "عوام کو تشدد پر اکسانے" کے الزام میں حراست میں لے لیا تھا۔
خیال رہے کہ اخوان کی قیادت فوج کے ہاتھوں معزول ہونے والے صدر محمد مرسی کے بحالی کے لیے گزشتہ ایک ماہ سے ملک گیر احتجاجی تحریک چلارہی ہے۔
'المصری الیوم' نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ خیرت الشاطر نے ملاقات کے لیے آنے والے امریکی و یورپی نمائندوں پر واضح کیا ہے کہ وہ ان سے محمد مرسی کی موجودگی میں ہی مذاکرات کریں گےجو ان کے بقول "مصر کے قانونی طور پر منتخب صدر" ہیں۔
امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے علاوہ امریکہ کے صدر براک اوباما کی درخواست پر امریکی سینیٹ کے دو ارکان لنڈسے گراہم اور جان مک کین پر مشتمل ایک وفد بھی پیر کو قاہرہ پہنچ رہا ہے جس کی مصر کے اعلیٰ فوجی افسران، عبوری حکومت کے عہدیداروں اور اخوان کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتیں متوقع ہیں۔
قاہرہ روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے 'ری پبلکن' جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ مصر کی فوج کو فوری طور پر سیاست میں مداخلت بند کرنا ہوگی ورنہ اسے امریکی سے ملنے والی ڈیرھ ارب ڈالر کی سالانہ امداد خطرے میں پڑسکتی ہے۔
مصر میں جاری سیاسی بحران کے حل کے لیے کی جانے والی ان بین الاقوامی کوششوں کے باوجود ملک کی سیاسی فضا انتہائی کشیدہ ہے اور محمد مرسی کے حامیوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
پیر کو بھی معزول صدر کے ہزاروں حامیوں نے دارالحکومت قاہرہ کے مرکزی علاقے میں ایک بڑا جلوس نکالا اور صدر مرسی کی بحالی کے حق میں اور انہیں معزول کرنے والے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔
جلوس کے شرکا نے مصر کے 'پبلک پراسیکیوٹر' کے دفتر کے سامنے دھرنا بھی دیا۔ پراسیکیوٹر کے دفتر نے محمد مرسی کی معزولی کے بعد سے اخوان کے کئی اعلیٰ رہنمائوں کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات عدالتوں کو بھجوائے ہیں جنہیں محمد مرسی کے حامی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انتقامی کاروائی قرار دے رہی ہیں۔
امریکی نائب وزیرِ خارجہ ولیم برنز نے پیر کو عبوری حکومت کے عہدیداران سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد وہ محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے اسیر رہنما خیرت الشاطر سے ملے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکی نائب وزیرِ خارجہ اخوان کے رہنما سے ملاقات کے لیے قاہرہ کے جنوبی علاقے میں قائم اس جیل گئے جہاں مصر کی عبوری حکومت نے انہیں قید میں رکھا ہوا ہے۔
مصر کے ایک اخبار 'المصری الیوم' کے مطابق یورپی یونین کے نمائندے برنارڈینو لیون اور مصر کی مسلح افواج کے کچھ اعلیٰ افسران بھی امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے ہمراہ تھے۔
خیرت الشاطر 'اخوان المسلمون' کے نائب سربراہ ہیں اور انہیں عرب دنیا کی اس سب سے بڑی اور منظم اسلامی جماعت کے سیاسی امور کا نگران قرار دیا جاتا ہے۔
الشاطر کو مصر کی فوجی انتظامیہ نے محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد "عوام کو تشدد پر اکسانے" کے الزام میں حراست میں لے لیا تھا۔
خیال رہے کہ اخوان کی قیادت فوج کے ہاتھوں معزول ہونے والے صدر محمد مرسی کے بحالی کے لیے گزشتہ ایک ماہ سے ملک گیر احتجاجی تحریک چلارہی ہے۔
'المصری الیوم' نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ خیرت الشاطر نے ملاقات کے لیے آنے والے امریکی و یورپی نمائندوں پر واضح کیا ہے کہ وہ ان سے محمد مرسی کی موجودگی میں ہی مذاکرات کریں گےجو ان کے بقول "مصر کے قانونی طور پر منتخب صدر" ہیں۔
امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے علاوہ امریکہ کے صدر براک اوباما کی درخواست پر امریکی سینیٹ کے دو ارکان لنڈسے گراہم اور جان مک کین پر مشتمل ایک وفد بھی پیر کو قاہرہ پہنچ رہا ہے جس کی مصر کے اعلیٰ فوجی افسران، عبوری حکومت کے عہدیداروں اور اخوان کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتیں متوقع ہیں۔
قاہرہ روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے 'ری پبلکن' جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ مصر کی فوج کو فوری طور پر سیاست میں مداخلت بند کرنا ہوگی ورنہ اسے امریکی سے ملنے والی ڈیرھ ارب ڈالر کی سالانہ امداد خطرے میں پڑسکتی ہے۔
مصر میں جاری سیاسی بحران کے حل کے لیے کی جانے والی ان بین الاقوامی کوششوں کے باوجود ملک کی سیاسی فضا انتہائی کشیدہ ہے اور محمد مرسی کے حامیوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
پیر کو بھی معزول صدر کے ہزاروں حامیوں نے دارالحکومت قاہرہ کے مرکزی علاقے میں ایک بڑا جلوس نکالا اور صدر مرسی کی بحالی کے حق میں اور انہیں معزول کرنے والے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔
جلوس کے شرکا نے مصر کے 'پبلک پراسیکیوٹر' کے دفتر کے سامنے دھرنا بھی دیا۔ پراسیکیوٹر کے دفتر نے محمد مرسی کی معزولی کے بعد سے اخوان کے کئی اعلیٰ رہنمائوں کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات عدالتوں کو بھجوائے ہیں جنہیں محمد مرسی کے حامی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انتقامی کاروائی قرار دے رہی ہیں۔