امریکی تجزیہ کاروں کے نزدیک، قطر اور خطے کے دیگر ملکوں کے درمیان جاری تنازعے کا جلد از جلد حل ضروری ہے، کیونکہ یہ بحران خطے میں امریکی مفادات سے متصادم ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قطر میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی ہوائی اڈہ ہے، جہاں سے داعش مخالف ساری کاروائیاں ہوتی ہیں۔ یہاں، لگ بھگ 10 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، اور امریکی فوج کی سینٹرل کمان کا ’فارورڈ آپریشنل ہیڈکوارٹر‘ بھی یہیں قائم ہے۔
رواں ماہ سعودی عرب، بحرین، یمن، مصر اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع اور تمام بحری، فضائی اور زمینی راستے منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کی بعد میں بعض چھوٹے مسلم ملکوں نے بھی حمایت کی تھی۔
قطر کا بائیکاٹ کرنے والے ملکوں کا الزام ہے کہ قطر دہشت گرد گروہوں بشمول فلسطین میں سرگرم مزاحمتی تنظیم حماس اور عالمِ عرب کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کو مالی مدد فراہم کرتا ہے۔
بحران پر بات کرتے ہوئے، ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کے تجزیہ کار لَیُوک کوفی کا کہنا تھا کہ ’’میں کہوں گا کہ امریکہ کیلئے سیاسی نوعیت سے عملی نوعیت کی تشویش زیادہ شدت کی باعث ہے۔ ملک سے باہر، قطر میں امریکہ کا سب سے بڑا فضائی اڈہ ہے۔ یہاں قریباً دس ہزار امریکی افواج تعینات ہیں، اور یہ امریکی قیادت میں چلنے والی داعش مخالف مہم کا صدر دفتر ہے‘‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی لحاظ سے امریکہ کو یہ تشویش نہیں ہے کہ اس اڈے کو بند کر دیا جائے گا، جیسا کہ سن دو ہزار پانچ میں اُزبکستان کے کارشی خان آباد اڈے کو کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’امریکہ کیلئے اس بحران سے متعلق سیاسی اور عملی تشویش موجود ہے۔ تاہم، میرے نزدیک عملی نوعیت کی تشویش موجود ہے، اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کو اس بہت بڑے اڈے کیلئے رسد بہم پہنچانے کے عمل کو جاری رکھنا ہے۔ اور یہ رسد، اسی علاقے سے بھجوائی جاتی، جہاں موجود ممالک نے قطر کا عملاً بائیکاٹ کیا ہے۔ سو مختصر مدت کیلئے، امریکہ کیلئے اس رسد کو اڈے تک پہنچانے میں خاصی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ اس لئے میرے نزدیک یہ سب سے بڑی تشویش ہے‘‘۔
’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ‘ کی تجزیہ کار لوری بوگارٹ کہتی ہیں کہ انکے نزدیک یہ بحران امریکی مفادات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اسی لئے تو امریکی وزیر خارجہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اس بحران سے، داعش مخالف مہم کیلئے طویل مدتی منصوبہ بندی متاثر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ یہاں واشنگٹن میں، بہت سے لوگ، قطر کی چند پالیسیوں کو علاقائی سلامتی سے متصادم خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’واشنگٹن کے تناظر سے، ایک ایسا قطر جو عدم استحکام کا شکار ہو، امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے، ایک ایسا قطر جو اپنے آپ کو اتنا بے یار و مدد گار محسوس کرے کہ ایرانی کیمپ کے ساتھ جا ملے، واشنگٹن کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘
جب تجزیہ کاروں سے پوچھا گیا کہ کیا بحران کے خاتمے میں یا مصالحت میں امریکہ کوئی کردار ادا کر سکتا ہے، تو اس کے جواب میں لیوک کوفی کا کہنا تھا انہیں علم نہیں ہے کہ اس وقت، امریکہ کیلئے یہ مناسب ہوگا کہ وہ کسی قسم کی مصالحت کرانے کی کوششوں میں شامل ہو، جو کہ بنیادی طور پر گلف اور وسیع تناظر میں عرب اور مسلم دنیا کا معاملہ ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا ’’اگر یہ معاملہ طوُل کھینچتا ہے، تو شاید امریکہ کو کسی قسم کی سفارتی کوشش کرنی چاہئیے۔‘‘
لوری باوگارٹ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں مصالحت کیلئے امریکہ کو بہت اہم کردار ادا کرنا چاہئیے۔ انہوں نے کہا ’’ہمارے گلف کو آپریش کونسل کے ارکان کے ساتھ بہت مضبوط تعلقات ہیں۔ اور امریکہ کا خطے میں بڑا اہم سٹریٹیجک مفاد ہے۔ اس لئے، میرے خیال میں امریکہ کو سب سے پہلے تمام فریقین کو میز پر اکٹھا کرنا چاہئیے تاکہ اُن کی شکایات پر تفصیل سے بات ہو سکے، اور وہ کھل کر اپنے شکوے کریں۔ اور اس کے بعد اگلا قدم یہ ہونا چاہئیے کہ دونوں فریق اپنی طرف کچھ تبدیلیاں لائیں جو دونوں کو منظور ہوں۔‘‘
ترکی کے کردار اور ارادوں کے بارے میں سوال پر، لیوک کوفی کا کہنا تھا انہیں لگتا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان ’’سیاسی اسلام کے بہت حامی ہیں، اس لئے مشرق وسطی میں سیاسی اسلام کے کردار اور اخوان المسلین سے منسلک گروپوں کے کردار کے بارے میں ترکی کے وسیع تر نظریے کی قطر کی جانب سے ملنے والی حمایت کا اردوان احترام کرتے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں یہ بات، خطے میں اردوان کے سیاسی اسلام کے نظریے سے مطابقت رکھتی ہے، اور یہ ترکی کی جانب سے خطے میں مزید افواج بھجوانے کی حالیہ سوچ سے بھی ہم آہنگ ہے، اور یہ مشرق وسطی میں ترکی کے کرادر کے حوالے سے بھی اردوان کے تصور سے میل کھاتی ہے۔‘‘
لوری بوگارٹ کا کہنا تھا کہ صرف گزشتہ ہفتے اس بحران سے پہلے کا مشرق وسطی اور آج کا یہ خطہ بہت مختلف ہیں۔ انہوں نےکہا ’’میرے خیال میں، ترکی اور ایران سمیت، بہت سے ملک موجود بحران کے تناظر میں سیاسی اور معاشی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ امریکہ کی نظر سے، اس بحران کا جلد سے جلد حل ہونا بہت ضروری ہے، تاکہ قطر یا خطے میں ترکوں یا ایرانیوں کی جانب سے نئی افواج متعارف نہ کرائی جا سکیں۔‘‘
کسی مصالحت کے حوالے سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا قطر اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی لائے گا؟ بظاہر لگتا ہے کہ وہ ایسا کرے گا۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ قطر کتنی تبدیلیاں لائے گا جس سے کہ دوسرے فریق مطمئن ہو سکیں اور یہ بحران اپنے اختتام کو پہنچے۔