امریکی قانون نافذ کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ رواں ہفتے عراق میں کرد فورس "پیش مرگہ" کی طرف سے گرفتار کیے جانے والے ایک امریکی شہری نے داعش جیسے انتہا پسند گروپ میں کس طرح شمولیت اختیار کی۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے پاس عراق میں اتنی افرادی قوت نہیں ہے کہ وہ داعش کے ان تمام جنگجوؤں کی تفتیش کرے جنہیں گرفتار کیا گیا ہے اور نا ہی انہیں ورجینا میں پیدا ہونے والے محمد جمال قوی کے معاملے سے کوئی دلچسپی ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ شمالی عراق میں سنجار کے قصبے میں گرفتار ہونے سے قبل دو ماہ تک داعش کے ساتھ رہا۔
تاہم امریکی تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ وہ جمال کی سرگرمیوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
کردستان علاقائی سکیورٹی کونسل کا کہنا ہے کہ 26 سالہ جمال کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب اس نے موصل میں واقع داعش کے گڑھ سے کرد علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
کرد حکام کا کہنا ہے کہ جمال نے مشرق وسطیٰ آنے سے پہلے ایک نوجوان عراقی خاتون کے ہمراہ یورپی ملکوں میں کئی بار قیام کیا اور بالآخر دسمبر میں اس نے ترکی کی راستے شام کا سفر کیا۔ حکام کہنا ہے کہ وہ جنوری کے اواخر میں عراق پہنچا اور اس نے انہیں بتایا کہ وہ گھر واپس جانے کے لیے وہاں سے فرار ہوا۔
کرد حکام کے مطابق انہوں نے جمال کے متعلق امریکی حکام سے رابطہ کیا ہے اور "متعلقہ سکیورٹی حکام اس سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں"۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ جمال کتنے عرصے سے داعش کے ساتھ رابطے میں تھا یا اس کو کس طرح بھرتی کیا گیا۔ اس کے خاندان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمال کئی بار مشرق وسطیٰ گیا۔
جمال نے ابتدائی طورپر کرد فورسز کو بتایا کہ وہ غلطی سے یہ سمجھتے ہوئے پیش مرگہ فورسز کے اڈے میں داخل ہو گیا کہ یہ ترک سرحدی فورس کی چوکی ہے۔
کرد کمانڈر جو اس کی گرفتاری کے وقت موجود تھا کا کہنا ہے کہ "اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اس کے پاس صرف اپنے ذاتی (استعمال کی) چیزیں تھی"۔