واشنگٹن —
امریکی حکام نے بوسٹن بم دھماکوں کے ملزم بھائیوں کے روس میں مقیم والدین سے پوچھ گچھ کی ہے۔
امریکی اہلکاروں کی ایک ٹیم نے روسی سیکیورٹی حکام کے ہمراہ منگل کی شب روس کے صوبے داغستان میں مقیم سرنائیو اور اور ان کی اہلیہ زبیدہ سرنائیو سے ان کے بیٹوں کے متعلق تفتیش کی۔
حکام کا کہنا ہے کہ تفتیشی اہلکاروں نے ملزمان کی والدہ سے بدھ کو بھی پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری رکھا۔
امریکی اہلکاروں کے مطابق ملزمان کے والدین سے تفتیش کا مقصد یہ جاننے کی کوشش کرنا ہے کہ ملزمان کو امریکہ میں بم دھماکوں کی تحریک کیسے ملی تھی؟
تفتیش کار یہ جاننے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں کہ آیا ملزم تیمرلان سرنائیو کے اپنے آبائی وطن میں مسلمان شدت پسندوں کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات یا روابط تھے۔
امریکی حکام کے مطابق تیمرلان نے گزشتہ سال اپنے آبائی علاقے چیچنیا اور داغستان میں چھ مہینے تک قیام کیا تھا۔
ملزم کے 'ایف بی آئی' کی 'واچ لسٹ' میں ہونے اور اس طویل دورے کے باوجود امریکی تحقیقاتی ادارے نے اس پر دہشت گردی کا شبہ ظاہر نہیں کیا تھا جس پر کئی امریکی قانون ساز اسے 'ایف بی آئی' کی غفلت قرار دے رہے ہیں۔
اس دورے سے ایک برس قبل 2011ء میں روسی حکام نے 'ایف بی آئی' کو 26 سالہ تیمر لان سارنیو کے مبینہ طور پر شدت پسندی میں ملوث ہونے سے متعلق مطلع کیا تھا لیکن امریکی ادارے نے پوچھ گچھ کے بعد سارنیو کو 'کلیئر' کردیا تھا۔
خیال رہے کہ تیمرلان گزشتہ ہفتے بوسٹن پولیس کےساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا تھا جب کہ اس کے چھوٹے بھائی جوہر سارنیو کو پولیس نے کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد زخمی حالت میں حراست میں لے لیا تھا۔
دونوں بھائیوں پر گزشتہ ہفتے 'بوسٹن میراتھن' کے موقع پر ہونے والے بم دھماکوں کا الزام ہے جس میں تین افراد ہلاک اور 170 زخمی ہوگئے تھے۔
انیس سالہ جوہر شدید زخمی حالت میں بوسٹن کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہے اور اس پر بڑے پیمانے پہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
الزام ثابت ہونے کی صورت میں جوہر کو سزائے موت ہوسکتی ہے۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ جوہری نے اپنے ابتدائی بیان میں دہشت گردوں کے کسی بڑے نیٹ ورک سے منسلک ہونے کی تردید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دونوں بھائیوں نے بم دھماکوں کی کاروائی انفرادی طور پر انجام دی تھی جس کا مقصد افغانستان اور عراق کی جنگوں پر اپنے غصے کا اظہار کرنا تھا۔
امریکی اہلکاروں کی ایک ٹیم نے روسی سیکیورٹی حکام کے ہمراہ منگل کی شب روس کے صوبے داغستان میں مقیم سرنائیو اور اور ان کی اہلیہ زبیدہ سرنائیو سے ان کے بیٹوں کے متعلق تفتیش کی۔
حکام کا کہنا ہے کہ تفتیشی اہلکاروں نے ملزمان کی والدہ سے بدھ کو بھی پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری رکھا۔
امریکی اہلکاروں کے مطابق ملزمان کے والدین سے تفتیش کا مقصد یہ جاننے کی کوشش کرنا ہے کہ ملزمان کو امریکہ میں بم دھماکوں کی تحریک کیسے ملی تھی؟
تفتیش کار یہ جاننے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں کہ آیا ملزم تیمرلان سرنائیو کے اپنے آبائی وطن میں مسلمان شدت پسندوں کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات یا روابط تھے۔
امریکی حکام کے مطابق تیمرلان نے گزشتہ سال اپنے آبائی علاقے چیچنیا اور داغستان میں چھ مہینے تک قیام کیا تھا۔
ملزم کے 'ایف بی آئی' کی 'واچ لسٹ' میں ہونے اور اس طویل دورے کے باوجود امریکی تحقیقاتی ادارے نے اس پر دہشت گردی کا شبہ ظاہر نہیں کیا تھا جس پر کئی امریکی قانون ساز اسے 'ایف بی آئی' کی غفلت قرار دے رہے ہیں۔
اس دورے سے ایک برس قبل 2011ء میں روسی حکام نے 'ایف بی آئی' کو 26 سالہ تیمر لان سارنیو کے مبینہ طور پر شدت پسندی میں ملوث ہونے سے متعلق مطلع کیا تھا لیکن امریکی ادارے نے پوچھ گچھ کے بعد سارنیو کو 'کلیئر' کردیا تھا۔
خیال رہے کہ تیمرلان گزشتہ ہفتے بوسٹن پولیس کےساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا تھا جب کہ اس کے چھوٹے بھائی جوہر سارنیو کو پولیس نے کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد زخمی حالت میں حراست میں لے لیا تھا۔
دونوں بھائیوں پر گزشتہ ہفتے 'بوسٹن میراتھن' کے موقع پر ہونے والے بم دھماکوں کا الزام ہے جس میں تین افراد ہلاک اور 170 زخمی ہوگئے تھے۔
انیس سالہ جوہر شدید زخمی حالت میں بوسٹن کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہے اور اس پر بڑے پیمانے پہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
الزام ثابت ہونے کی صورت میں جوہر کو سزائے موت ہوسکتی ہے۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ جوہری نے اپنے ابتدائی بیان میں دہشت گردوں کے کسی بڑے نیٹ ورک سے منسلک ہونے کی تردید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دونوں بھائیوں نے بم دھماکوں کی کاروائی انفرادی طور پر انجام دی تھی جس کا مقصد افغانستان اور عراق کی جنگوں پر اپنے غصے کا اظہار کرنا تھا۔