رسائی کے لنکس

ویانا میں ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے؟


یورپی یونین کے نمائندے، ایریک مورا۔ (فائل فوٹو)
یورپی یونین کے نمائندے، ایریک مورا۔ (فائل فوٹو)

ویانا میں امریکہ کے ساتھ ایران کے بالوسطہ مذاکرات کا ساتواں دور بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا اور جمعے کے روز ملتوی کر دیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مذاکرات نہ تو ٹوٹے ہیں، نہ ہی ناکام ہوئے ہیں، بس پیش رفت بہت سست ہے۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدہ تمام فریقوں کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ کب، کیسے اور کن شرائط پر ہوگا، اس کا انحصار آنے والے حالات پر ہو گا۔

جہانگیر خٹک، نیویارک سٹی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور عالمی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں کا خیال ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کی رفتار میں بہت تیزی پیدا کی ہے اور اب وہ اس مرحلے سے چند ہفتوں یا چند مہینوں دور رہ گیا ہے، جہاں وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب یورپی یونین کے نمائندے ایریک مورا یہ کہتے ہیں کہ معاہدے کے لئے اب مہینوں کی نہیں بلکہ ہفتوں کی مہلت رہ گئی ہے، تو ان کے خیال میں ایریک مورا کا اشارہ اسی جانب ہے۔ جہاںگیر خٹک کے مطابق اس سے یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے کہ اگر سال کے اختتام تک کوئی معاہدہ نہ ہو سکا تو امریکہ کے اس معاہدے سے نکلنے کے اعلان کی شرائط کے مطابق اگلے سال کے اوائل میں امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف خودکار طور پر مزید پابندیاں عائد ہو جائیں گی جس سے حالات اور بھی پیچیدہ ہو جائیں گے۔

جہانگیر خٹک نے کہا کہ اگر ایران اور مغربی ممالک دونوں کی جانب سے رویوں میں تبدیلی نہیں آتی تو جلد کسی معاہدے کے امکانات نظر نہیں آتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ امریکہ پر اسرائیل سمیت بعض قریبی اتحادی ملکوں کی جانب سے دباؤ ہے کہ ایران سے کسی معاہدے سے پہلے اس سے مزید شرائط منوائی جائیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ یہ مثبت بات ہے کہ بات چیت جاری ہے۔

بقول ان کے، امریکہ میں اگلا سال انتخابات کا سال ہو گا اور اگر مذاکرات اس وقت تک کسی نتیجے کے بغیر ٹلتے رہے تو پھر امریکی حکومت کے پاس بھی آپشنز محدود ہو جائیں گی۔

ڈاکٹر راشد نقوی ایران میں مقیم پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ امریکہ تو ابھی براہ راست اس معاملے میں داخل نہیں ہوا ہے، لیکن ایران اور یورپ کے میڈیا میں اس حوالے سے زور و شور سے مہمیں جاری ہیں۔ اور دونوں طرف سے پروپیگنڈہ نظر آرہا ہے اور ایران کا میڈیا یورپی ٹرائیکا کے خلاف سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ لیکن جو مذاکرات کی اندر کی اصل صورت حال ہے، اس میں اور پروپیگنڈے میں فرق نظر آرہا ہے۔

انہوں نے کہا ایران کے سرکاری نمائندے یہ بتا رہے ہیں کہ چھٹیوں کے سبب مذاکرات میں ایک وقفہ آیا ہے اور وہ اس بات کی، بقول ان کے، شدت سے تردید کرتے ہیں کہ امریکہ سے ایران کے کوئی براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں اور یہ کہ یورپی یونین کے نمائندے ایریک مورا ہی جلد مذاکرات کے اگلے راؤنڈ کا اعلان کریں گے۔

اس سوال پر کہ جب ایریک مورا کہتے ہیں کہ معاہدے کے لئے اب مہینوں کا نہیں ، ہفتوں کا وقت رہ گیا ہے تو کیا ان کا یہ مطلب ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے قریب پہنچ گیا ہے؟ ڈاکٹر راشد نے کہا کہ یہ پرانا الزام ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران کا ہمیشہ سے موقف یہ رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا، کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور ایران میں اسلامی نظام ہے اور رہبر اعلیٰ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ایٹم بم بنانا حرام ہے تو اب اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ایران اپنے موقف پر قائم ہے کہ اس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور توانائی کی ضروریات کے لئے اسے سابقہ معاہدے کے مطابق اپنے جوہری پروگرام پر عمل درآمد کرنے دیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ نہ وہ اس معاہدے کے سلسلے میں کوئی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے، نہ ہی وہ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں مزید تعزیرات سے خائف ہے۔ ان کے بقول مزید تعزیرات کی صورت میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اقتصادی سفارتکاری شروع کر دی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ پندرہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دیا جائے تاکہ اگر تعزیرات عائد ہوں تو ان کے اثرات سے نمٹا جا سکے۔

ادھر پچھلے ہفتے امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے کہا تھا کہ ویانا مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے مگر جتنا ہم چاہتے ہیں، اس لحاظ سے کافی نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG