رسائی کے لنکس

پانچ ماہ بعد ایران جوہری معاہدے پر مذاکرات کا دوبارہ آغاز


ویانا میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے صدر دفتر کے دورازے پر ادارے کا لوگو دکھائی دے رہا ہے۔ فائل فوٹو
ویانا میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے صدر دفتر کے دورازے پر ادارے کا لوگو دکھائی دے رہا ہے۔ فائل فوٹو

پانچ ماہ کے وقفے کے بعد پیر کے روز ویانا میں 2015ء کے ایران جوہری معاہدے پر پھر سے بات چیت کا آغاز ہوا، جب سے ایران میں نئے صدر نے عہدہ سنبھالا ہے، مذاکرات کا سلسلہ پہلی بار شروع ہوا ہے۔

اپریل میں شروع ہونے والے مذاکرات میں، جس کے اب تک چھ دور ہو چکے ہیں، امریکہ نے بالواسطہ شرکت کی ہے، 2015ء کے اس معاہدے کو مشترکہ مربوط سمجھوتے کا نام دیا جاتا ہے۔

ایران 2015ء کے معاہدے کے دستخط کنندہ ملکوں برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی سے براہ راست بات کرے گا، جب کہ یورپ کے سفارت کار امریکہ سے مشاورت کرتے رہیں گے۔

سمجھوتے کی بحالی کا دار و مدار اس بات پر ہو گا کہ 10 سے 15 برس کے لیے پابندیوں میں نرمی کے عوض ایران اپنے جوہری پروگرام پر لگنے والی پابندیوں کی پاسداری کرے گا۔

سال 2018ء میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ سمجھوتے سے علیحدہ ہو گیا تھا جب ایران اپنے وعدوں سے ہٹ چکا تھا۔

اب تک ایران، یورینیئم کے ذخیرے کی مقدار، یورینیئم کے افزود کرنے کی انتہائی سطح اور اپنی جوہری تنصیبات پرجدید سینٹری فیوجز کی تعداد میں اضافہ نہ کرنے سے متعلق اتفاق کردہ حدود سے کئی گنا تجاوز کر چکا ہے۔

اصل سمجھوتہ اس وقت عمل میں آیا تھا جب یہ خدشات بڑھ چکے تھے کہ ایران جوہری ہتھیار تشکیل دے رہا ہے، ایران اس دعوے کو مسترد کرتا ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام محض پر امن مقاصد، تحقیق اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہے۔

[اس میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس، ایجنسی فرانس پریس اور رائٹرز کی خبروں سے لیا گیا ہے]

XS
SM
MD
LG