امریکہ نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی، جس کا تعلق تہران کے جوہری پروگرام کو پابندیاں نرم کرنے کے تبادلے میں محدود کرنا ہے، اب واشنگٹن کی ترجیج نہیں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کا اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کا معاہدہ جسے’ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن‘ کہا جاتا ہے، اب کچھ مہینوں سے ہمارے ایجنڈے میں نہیں ہے۔
امریکہ 2018 میں اس وقت ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے الگ ہو گیا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تھا کہ یہ معاہدہ ایران کے لیے بہت ساز گار ہے۔ ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں۔
ایران خود پر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد اس نے یورینیم کی افرودگی میں نہ صرف اضافہ کیا ہےبلکہ اس کے ذخائر بھی بڑھائے۔اس نے مزید جدید سینٹری فیوجز نصب کیے اور افزودگی کے درجے میں اضافہ کیا۔
پرائس نے بدھ کو کہا کہ ایران کی جانب سے گزشتہ سال کے آخر میں معاہدے میں دوبارہ داخل ہونے کی شرائط سے انکار کے بعد اب امریکہ کی توجہ ایران میں وسیع پیمانے پر ستمبر سے جاری مظاہروں کے سلسلے میں ایرانی عوام کے عالمی حقوق کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش پر مرکوز ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ یوکرین پر روسی حملے میں ایران کے کردار پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کے حوالے سے ہمیں جوسب سے پیچیدہ چیلنجز درپیش ہیں ان میں جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں بدنیتی پر مبنی تہران کی سرگرمیاں ہیں۔
پرائس نے نامہ نگاروں سے کہا کہ آپ یہ دیکھیں کہ ایران اپنے ہی عوام کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔ ریاستی جبر اور تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والے بہادر ایرانیوں کے ساتھ اس کا رویہ کیا ہے۔ اور وہ روس کو جس طرح کی فوجی اور سیکیورٹی کے حوالے سے امداد دے رہا ہے، اس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔یہ بلاشبہ پیچیدہ اور مشکل چیلنجز میں شامل ہیں۔
(وی او اے نیوز)