سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے گولان ہائٹس کے متنازع علاقے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے۔
کونسل کے ارکان نے بدھ کی شام ہونے والے ہنگامی اجلاس میں امریکی اعلان پر کڑی نکتہ چینی کی اور اسے خطے میں قیامِ امن کی کوششوں کے خلاف اقدام قرار دیا۔
اجلاس شام کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا جس میں امریکہ کی جانب سے گولان ہائٹس پر اسرائیل کی ملکیت کا دعویٰ تسلیم کرنے کے اعلان پر بحث کی گئی۔
گولان ہائٹس کا علاقہ شام کا حصہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران قبضہ کرلیا تھا۔ اسرائیل نے 1981ء میں اس علاقے کا اپنے ساتھ الحاق کرلیا تھا جسے بین الاقوامی برادری اور اقوامِ متحدہ نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
عالمی طاقتیں اور اقوامِ متحدہ تاحال گولان ہائٹس کو اسرائیل کا مقبوضہ علاقہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن رواں ہفتے صدر ٹرمپ نے عالمی برادری کے اس دیرینہ موقف کے برخلاف گولان ہائٹس کو اسرائیل کی ملکیت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی صدر کے اس فیصلے پر اقوامِ متحدہ اور امریکہ کے مغربی اور عرب اتحادیوں نے بھی کڑی تنقید کی تھی۔
بدھ کو امریکی فیصلے پر غور کے لیے ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران امریکہ کے علاوہ کونسل کے تمام 14 ارکان –بشمول برطانیہ اور جرمنی – نے بھی امریکی فیصلے پر کڑی تنقید کی۔
کونسل کے رکن ممالک کے مندوبین کا کہنا تھا کہ اس تنازع پر امریکہ کا یک طرفہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہے جن کی ماضی میں خود امریکہ حمایت کرتا آیا ہے۔
اجلاس سے خطاب میں امریکی مندوب نے کہا کہ گولان ہائٹس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے کے فیصلے کا مقصد اسرائیل کے حقِ دفاع کا تحفظ ہے۔
اجلاس میں شام اور اسرائیل کے نمائندے بھی خصوصی دعوت پر شریک تھے جنہوں نے اجلاس کے دوران ایک دوسرے پر کڑی تنقید کی۔
امریکہ کے کونسل کا مستقل رکن ہونے اور ویٹو پاور رکھنے کی وجہ سے ہنگامی اجلاس کو صرف بحث تک محدود رکھا گیا تھا اور امریکی اقدام کے خلاف کوئی قرارداد اجلاس میں پیش نہیں کی گئی۔
اگر کوئی قرارداد پیش بھی کی جاتی تو امکان یہی تھا کہ امریکہ اسے ویٹو کردیتا۔