رسائی کے لنکس

گولان ہائٹس سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر عالمی رہنماؤں کی تنقید


فائل
فائل

عالمی رہنماؤں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان پر نکتہ چینی کی ہے، جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ امریکہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حقِ حاکمیت تسلیم کرے گا۔

شام کی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز کہا ہے کہ ٹرمپ کا یہ اعلان ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ ہے، اور اس سے ’’اس حقیقت میں کوئی رد و بدل نہیں آئے گی کہ گولان عرب اور شامی تھا، اور رہے گا‘‘۔

وزارت خارجہ کے ایک ذریعے نے شام کے سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے، ’سانا‘ کو بتایا ہے کہ ’’اس سے امریکہ کی جانب سے بین الاقوامی قانونی حقائق کے لیے حقارت اور امریکی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا واضح اندازہ ہوتا ہے‘‘۔

سال 1967ء کی چھ روزہ لڑائی کے دوران اسرائیل نے گولان ہائٹس پر قبضہ کر لیا تھا، اور تب سے یہ علاقہ اسرائیل کے زیر کنٹرول رہا ہے۔

ترک صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے اعلان سےخطہ ’’ایک نئے بحران اور نئے تناؤ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے‘‘۔

ترک وزیر خارجہ، مولود چاوش اولو نے استنبول میں اسلامی ملکوں کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ارکان کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے ’’کئی برسوں سے الاقصہ مسجد پر باضابطہ حملے‘‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کو مذہبی عقائد، مقدس مقامات یا مل کر رہنے کے لیے درکار برداشت کی حرمت کے تقاضوں کی کوئی پرواہ نہیں‘‘۔

چاوش اولو نے مزید کہا کہ ’’گولان ہائٹس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقابل قبول بیانات اِسی ٹیڑھی سوچ کی غمازی کرتے ہیں‘‘۔

عرب لیگ کے سربراہ احمد ابو الغیط نے بھی اس اعلان پر تنقید کی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ’’کوئی ملک چاہے کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، اس طرح کا فیصلہ صادر نہیں کر سکتا‘‘۔

چھ عرب بادشاہتوں کے گروپ پر مشتمل، خلیج تعاون تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹرمپ ’’اُس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔۔۔کہ عرب گولان ہائٹس شامی علاقہ ہے جس پر فوجی طاقت کے زور پر اسرائیل نے قبضہ کیا تھا‘‘، اور یہ اعلان ’’منصفانہ اور مربوط امن کے حصول کے امکانات‘‘ کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔

مصر کی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 497کا حوالہ دیا ہے، جس میں علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اقدام کو مسترد کیا گیا ہے۔ وزارت نے اس بات پر زور دیا کہ ’’عالمی سربراہان کو چاہیئے کہ وہ بین الاقوامی اقتدار اعلیٰ سے متعلق قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی حرمت کا خیال رکھیں؛ جس میں طاقت کے زور پر زمین پر قبضہ جمانے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے پیش گوئی کی ہے کہ ’’ٹرمپ کے ذاتی فیصلے ۔۔خطے میں بحران کا باعث بنیں گے‘‘۔

یورپی یونین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ متنازع علاقے پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ یورپی یونین کی ایک خاتون ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ ’’یورپی یونین کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا‘‘۔

روس نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیلی اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرنے سے متعلق اعلان پر قانون سازی نہیں کی جائے گی۔ کریملن کے ترجمان، دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ’’بس، فی الحال یہ آواز لگانے کا معاملہ ہے‘‘۔

ٹرمپ نے یہ اعلان جمعرات کے روز ٹوئٹر کے ذریعے کرتے ہوئے کہا تھا کہ گولان ہائٹس ’’حکمت عملی کے لیے اہم اور اسرائیل کی ریاست اور علاقائی استحکام کے لیے سکیورٹی کی اہمیت کی حامل ہے‘‘۔

ٹرمپ کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو یروشلم میں تھے۔ وہ اسرائیلی وزیر اعظم کے ہمراہ، متنازع مغربی دیوار کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ ترین سطح کے امریکی اہل کار ہیں، جو یروشلم کے مقدس شہر میں واقع ہے۔
دورے سے اس بات کا واضح عندیہ ملتا ہے کہ امریکہ اس مقدس مقام کو اسرائیلی علاقہ تسلیم کرتا ہے، جو اسرائیل کے زیر کنٹرول رہا ہے؛ لیکن اس کے فوری بعد، گولان ہائٹس کے بارے میں ٹرمپ کا ایک واضح بیان سامنے آیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ گولان ہائٹس سے اسرائیل پر حملوں کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں، اس کے علاوہ کئی اور وجوہات ہیں؛ اور اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری گولان پر موجود رہنے کے اسرائیل کے حق کو تسلیم کرے، اور یہ حقیقت کہ گولان ہمیشہ اسرائیل کی ریاست کا ایک جُزو رہے گا‘‘۔

امریکی صدر کے اعلان کے فوری بعد، اسرائیلی سربراہ نے ٹرمپ کے اس فیصلے کی تعریف کی۔

امریکی صدر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد، نیتن یاہو نے کہا کہ ’’صدر ٹرمپ نے ابھی ایک تاریخ ساز کام کیا ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’صدر ٹرمپ نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم امریکی حمایت پر اُن کے انتہائی شکر گزار ہیں‘‘۔

گذشتہ ہفتے امریکی محکمہٴ خارجہ نے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں گولان ہائٹس کے سیکشن میں ’’اسرائیلی زیر قبضہ‘‘ علاقے کا فقرہ ہذف کرکے اُس کی جگہ ’’اسرائیلی زیر کنٹرول‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ پومپیو نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اس اصطلاح کا استعمال نہ کرنا اتفاقی امر نہیں ہے، لیکن یہ زمینی حقائق کی غمازی کرتا ہے کہ اس علاقے کا کنٹرول یہودی ریاست ہی کے پاس ہے۔

یروشلم کے دورے کے دوران، پومپیو نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی طویل مدتی دوستی اور حمایت کا اعادہ کیا۔

گولان ہائٹس تقریباً 1800مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے جو اسرائیل کی شام سے ملنے والی سرحد کے کنارے پر واقع ہے، جس کا دو تہائی علاقہ اسرائیل کے زیر کنٹرول ہے، جب کہ باقی ماندہ شام کے متنازع کنٹرول میں ہے۔ اس علاقے کے معاملے پر شام کی خانہ جنگی کے دوران آٹھ برس سے کئی ایک بار لڑائیاں ہو چکی ہیں۔

اسرائیل نے باضابطہ طور پر 1981ء میں یہ علاقہ ضم کیا تھا۔ لیکن، بین الاقوامی برادری نے انضمام کا یہ اعلان تسلیم نہیں کیا اور وہ گولان ہائٹس کے علاقے کو زیر قبضہ زمین ہی قرار دیتی ہے۔

XS
SM
MD
LG