امریکہ کی ایک عدالت نے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے خلاف دائر ایک مقدمہ خارج کردیا ہے جس میں ان کے خلاف 2002ء میں ہونے والے گجرات فسادات روکنے میں ناکامی پر قانونی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
نیویارک کی فیڈرل ڈسٹرکٹ جج اینالیسا ٹوریس نے اپنے فیصلے میں امریکی محکمۂ خارجہ کے اس موقف کو درست قرار دیا ہے کہ سربراہِ مملکت ہونے کے ناتے مودی کو امریکی عدالتو ں میں دائر کیے جانے والے مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔
نریندر مودی کے خلاف یہ مقدمہ گزشتہ سال ستمبر میں انسانی حقوق کی ایک غیر معروف امریکی تنظیم نے اس وقت دائر کیا تھا جب بھارتی وزیرِاعظم اپنے پہلے دورۂ امریکہ کی تیاری کر رہے تھے۔
بھارتی وزیرِاعظم کے خلاف امریکہ میں مقدمے کے اندراج کو عالمی میڈیا نے شہ سرخیوں میں جگہ دی تھی لیکن دونوں ممالک کے حکام نے اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا تھا۔
مقدمہ دائر کرنے والی تنظیم 'امریکن جسٹس سینٹر' کے صدر جوزف وٹنگٹن نے گزشتہ سال مقدمے کے اندراج کے وقت خود بھی تسلیم کیا تھا کہ ان کی اس کوشش کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی کے خلاف ان کا یہ "علامتی قدم" ہی ایک کامیابی ہے۔
مقدمے میں کہا گیا تھا کہ ہندو قوم پرستی کا ماضی رکھنے والے بھارتی وزیرِاعظم نے 2002ء میں بھارت کی ریاست گجرات میں اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور ان ہونے والے بدترین ہندو مسلم فسادات روکنے میں دلچسپی نہیں لی تھی۔
ان فسادات کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمان تھے جو بھارت میں اقلیت میں ہیں۔
فسادات روکنے میں دلچسپی نہ لینے کے الزام کے باعث امریکہ نے بھی 2005ء میں مودی کو بحیثیت وزیرِاعلیٰ گجرات ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا۔
لیکن گزشتہ سال بھارت کا وزیرِاعظم منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی سے متعلق امریکہ کی حکمتِ عملی تبدیل ہوگئی تھی اور امریکی صدر نے مودی کو بھارتی وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً ہی بعد دورۂ امریکہ کی دعوت دی تھی جسے انہوں نے قبول کرلیا تھا۔
امریکی عدالت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر براک اوباما نریندر مودی کی دعوت پر بھارت جانے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں وہ 26 جنوری کو بھارت کے "یومِ جمہوریہ" کی مرکزی تقریب کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔