امریکہ کے محکمہ خارجہ نے پیر کو کہا کہ امریکہ بحرین ڈیفنس فورسز اور نیشنل گارڈ کی سکیورٹی معاونت میں تعطل کو ختم کر رہا ہے۔
2011 میں بحرین کی جانب سے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے بعد یہ تعاون روک دیا گیا تھا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں کہا کہ ’’اگرچہ ہمارے خیال میں بحرین میں انسانی حقوق کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ ۔ ۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ بحرینی حکومت نے انسانی حقوق میں اصلاحات اور مفاہمت پر اہم پیش رفت کی ہے۔‘‘
حالیہ ہفتوں میں ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے دوران صدر براک اوباما اپنے خلیجی حلیفوں کی سکیورٹی کے لیے واشنگٹن کے عزم پر زور دیتے رہے ہیں۔
بحرین طویل عرصہ سے امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے اور امریکی بحریہ کے پانچویں فلیٹ کے صدر دفتر کا میزبان بھی ہے۔
اکتوبر 2011 میں امریکہ نے بحرین کو ہتھیاروں کی مجوزہ فروخت کو اس سال فروری میں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہونے کے بعد انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا نتیجہ آنے تک مؤخر کر دیا تھا۔
مئی 2012 میں محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ وہ بحرین کے لیے کچھ فوجی ساز و سامان کی فروخت کو دوبارہ شروع کر رہا ہے۔
کربی کے بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اب بحرین کو کون سی اضافی معاونت فراہم کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس تعطل کے خاتمے کے بعد ہم بحرین کو انسانی حقوق پر اپنی تشویش کے بارے میں آگاہ کرتے رہیں گے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی واشنگٹن میں ڈائریکٹر سارہ مورگن نے ایک بیان میں کہا کہ ’’اوباما انتظامیہ کی جانب سے سیکورٹی معاونت پر پابندی اٹھانے کا فیصلہ حقیقی یا بامعنی سیاسی اصلاحات کی عدم موجودگی میں کیا جا رہا ہے۔‘‘
’’بحرین کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی ہیں اور حزب مخالف کے رہنما الوفاق کے سیکرٹری جنرل شیخ علی سلمان کو قید کی سزا کا مطلب ہے کہ سیاسی برداشت ابھی بھی بہت دور ہے۔‘‘
یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب خلیجی ریاستیں شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے سے دوچار ہیں۔
گزشتہ ہفتے داعش نے کویت میں ایک خود کش دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سی آئی اے اور وائٹ ہاؤس کے سابق اہلکار بروس رائیڈل نے قیاس کیا ہے کہ داعش کا اگلا حملہ بحرین میں ہو سکتا ہے۔
’’داعش (امریکہ کے) پانچویں بحری بیڑے کے میزبان ملک بحرین میں امریکیوں پر حملہ کر سکتی ہے۔‘‘