رسائی کے لنکس

امریکہ کی طویل جنگی مہمات کی مقبولیت میں کمی


امریکہ کی طویل جنگی مہمات کی مقبولیت میں کمی
امریکہ کی طویل جنگی مہمات کی مقبولیت میں کمی

ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بغاوتوں کو ختم کرنے اور اپنے دشمنوں سے لڑنے ، اور عراق اور افغانستان میں جمہوریت کی تعمیر کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے، اس کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے ۔ بعض امریکی عہدے دار اور کانگریس کے بہت سے ارکان اس قسم کی طویل اور مہنگی مہموں سے تنگ آ چلے ہیں۔امریکہ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے اپنی طاقت کا جس طرح استعمال کرتا ہے، شاید اس میں اہم تبدیلی آنے والی ہے ۔

2001 اور 2003 میں جب افغانستان اور عراق کی جنگیں شروع ہوئیں، تو امریکی عہدے داروں کو امید تھی کہ دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو ہٹا کر نمائندہ حکومتیں قائم کر دی جائیں گی، ان ملکوں میں دہشت گرد گروپوں کا جینا دوبھر ہو جائے گا، اور امریکہ تیزی سے وہاں سے نکل آئے گا۔ لیکن یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔

ہوا یہ کہ امریکی فوجیں اور سفارتکار طویل، خونریز جنگوں میں الجھ گئے، اور انہیں ان ملکوں میں قابلِ اعتبار نئی قیادت ، اور مؤثر سیکورٹی فورسز کو تیار کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان کی جنگ کو دس برس مکمل ہونے والے ہیں، اور اتحادی فوجیں ابھی مزید تین برس وہاں رہیں گی۔ عراق سے تمام امریکی فوجیں دسمبر کے آخر تک واپس آ نی ہیں لیکن وہاں تصادم اب بھی جاری ہے ۔

امریکہ کے وزیرِ دفاع نے بہت سے لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کی جب فروری میں انھوں نے ویسٹ پوائنٹ میں مستقبل کے آرمی افسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا’’میری رائے میں اگر مستقبل میں کوئی وزیرِ دفاع صدر کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ امریکہ کوئی بڑی زمینی فوج ایشیا میں یا مشرق وسطیٰ یا افریقہ میں بھیجے، تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیئے۔‘‘

وزیرِ دفاع گیٹس کے ان ریمارکس سے عراق اور افغانستان کی جنگوں سے پیدا ہونے والے کرب کا اظہار ہوتا ہے ، چاہے ہم نے بالآخر ان سے اپنے کچھ اسٹریٹجک مقاصد حاصل ہی کیوں نہ کر لیے ہوں۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان جنگوں میں، امریکہ اور اس کے اتحادی ایک جانے پہچانے مسئلے میں الجھ گئے، یعنی ایسے باغیوں سے لڑناجنہیں ان کے نظریے اور طویل عرصے سے جاری مسائل کی وجہ سے عوامی حمایت حاصل ہے، جو عام لوگوں میں گھل مل سکتے ہیں، نئے جنگجو حاصل کر سکتے ہیں، اور جیسا کہ افغانستان کے کیس میں ہوا ہے، ہمسایہ ملک میں پناہ لے سکتے ہیں۔

ویتنام اور دوسرے جنگوں کے بھولے ہوئے اسباق کو دوبارہ یاد کرنے میں امریکی فو ج کو کئی برس لگے۔ بالآخر 2006 میں اس نے بغاوتوں کو کچلنے کا ایک نیا نظریہ تحریر کیا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ فوجوں کو مقامی لوگوں کی حمایت حاصل کرنا سکھایا جائے، مقامی قیادت اور سیکورٹی فورسز کو تیار کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی باغیوں سے جنگ جاری رکھی جائے۔ فوجی تاریخ داں اور فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کونارڈ کرین کو یہ نظریہ تحریر کرنے پر مامور کیا گیا۔ بہت سے فوجیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے تحریر کردہ طریقے سے بہت سی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ لیکن اس سے جنگ فوری طور پر ختم نہیں ہوئی۔ اب، خاص طور سے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد، کانگریس کے بہت سے ارکان، اوباما انتظامیہ کے عہدے دار اور دوسرے لوگ افغانستان میں نیٹو کے مزید کئی برسوں پر پھیلے ہوئے فوجی منصوبوں کی ، انسانی جانوں اور پیسے کی بھاری قیمت پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

کرین کی نظر میں یہ تنقید نا مناسب ہے کیو ں کہ جب یہ نیا نظریہ تحریر کیا گیا تھا اس وقت بتا دیا گیا تھا کہ بغاوت کا انسداد کرنا بہت طویل اور مہنگا کام ہے اور اس میں جانی نقصان ناگزیر ہے۔

ایک اور ریٹائرڈ فوجی افسر، انسدادِ بغاوت کے نظریے کی مقبو لیت کم ہونے پر مطمئن ہیں۔ بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو باکیوچ ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ انھوں نے کئی کتابیں اور بہت سے مضامین لکھے ہیں جن میں انھوں نے امریکی لیڈروں کے اس رجحان پر تنقید کی ہے کہ وہ بخوشی طویل جنگوں پر فوجیں، امریکی ساکھ اور اقتصادی وسائل جھونکنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

’’یہ پورا تصور ہی مضحکہ خیز ہے کہ مغرب کے خلاف پُر تشدد جہادی تحریک کا جواب صرف جنگ ہے۔ اس طرح ہم ایسی پوزیشن میں آ جاتے ہیں کہ ہم جو بھی فیصلے کرتے ہیں وہ برے فیصلے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ کو طاقت کے استعمال میں زیادہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیئے ۔ اس طرح ہم اپنے مفادات کی بہتر طور پر حفاظت کر سکتے ہیں۔‘‘

باکیوچ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جانا چاہیئے ، فوجی مخالفین جیسا نہیں۔ اور اگرچہ وہ یہ بات تسلیم کرتےہیں کہ یہ طے کرنے میں کہ امریکہ کب اعلان ِ جنگ کرے گا، امریکہ کے مخالفین کا رول بھی اہم ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ امریکی عہدے داروں کو حملوں اور انسدادِ بغاوت کی مہمات کے علاوہ دوسرے وسیع تر امکانی طریقوں پر بھی غور کرنا چاہیئے۔

انسدادِ بغاوت کے نظریے کے مصنف کونارڈ کرین کہتے ہیں کہ اگر سیاسی لیڈر مستقبل میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس قسم کی کوشش ضروری ہے، تو240صفحات کی اس تصنیف سے انہیں اچھی رہنمائی مل سکتی ہے ۔

لیکن وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فوجی مہموں کی دوسری قسمیں بھی ہیں، جیسے آج کل لیبیا کے خلاف فضائی اور بحری کارروائیاں جاری ہیں، جو امریکہ اور اس کے اتحادی بہت سے حالات میں استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ اقتصادی پابندیاں، سفارتی کوششیں اور دوسرے ذرائع بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔ اور وہ وزیرِ دفاع گیٹس سے متفق ہیں کہ اب کافی عرصے تک، کوئی امریکی لیڈر انسداد بغاوت کی کسی طویل، مہنگی اور خونریزمہم کے لیئے تیار نہیں ہو گا۔

XS
SM
MD
LG