امریکہ میں بیروزگاری کے سنگین مسئلے پر’ نیو یارک ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ ایوان ِ نمائندگان میں ری پبلیکن لیڈر ارک کینٹرEric Cantor نے حسب توقع یہ کہا ہے کہ صدر اوباما کا روزگار سے متعلق بل وہاں پہنچنے کے ساتھ ہی مرجائے گا، بلکہ اُس پر کوئی بحث بھی نہیں ہوگی، جِس پر صدر نے اپنی روایتی رواداری سے ہٹ کر کینٹر کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ’کیا وہ امریکہ میں سڑکیں اور پُل دوبارہ تعمیر کرنے کے قائل نہیں ہیں؟ کیا وہ اساتذہ اور تعمیراتی کام کرنے والوں کو واپس روزگار پر نہیں لانا چاہتے؟‘
اخبار کا کہنا ہے کہ ری پبلیکنوں کی طرف سے روڑے اٹکانے کے خلاف اِسی قسم کی سخت مزاحمت کی ضرورت ہے۔ لیکن، اخبار کی نظر میں یہ بدقسمتی ہےکہ صدر سینیٹ کے ڈیموکریٹوں پر بھی اِسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالرہے۔ جہاں ڈیموکریٹوں کو اکثریت حاصل ہے، اور جہاں، اخبار کے بقول، اکثریتی لیڈر ہیری ریڈHarry Reid کے پاس اتنے ڈیموکریٹک ووٹ نہیں ہیں کہ وہ اکثریت کا دعویٰ کر سکیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے Caucusمیں بہت سے ارکان میں وہ سیاسی جراٴت نہیں ہے جو ملک کی معیشت کے احیاٴ کے لیے درکار حکومت کی طرف سے جارحانہ کارروائی کے لیے ضروری ہے۔ اور نہ وہ یہ اعتراف کرنے کے لیے تیار ہیں کہ دولتمند افراد پر زیادہ ٹیکس لگانا اور کارپوریٹ شعبے کو ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ کو ختم کرنابھی ضروری ہے تاکہ اِس احیاٴ پر اُٹھنے والا خرچ پورا کیا جائے اور خسارے کے مسئلے سے بھی نمٹا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسے میں جب لاکھوں افراد بے روزگار ہیں، ری پبلیکنوں کی طرف سے یہ سیاسی کھیل ناقابلِ معافی ہے لیکن بعض سینیٹروں نے بڑے بڑے کاروباری اداروں اور بڑے بڑےچندے دینے والوں کو بچانے کے لیے جس عُجلت سے کام لیا ہے وہ بھی کچھ کم مایوس کُن نہیں ہے۔
اخبار کہتا ہے ہوسکتا ہے کہ بالآخر یہ محض ایک سیاسی مشق ثابت ہو کیونکہ سینیٹ میں مسٹر McConnelکے ری پبلیکن ارکان اس بِل کو Fillibusterکریں گے۔ جب کہ، ایوانِ نمائندگان میں مسٹر کینٹر کے حامی اس کا بیشتر حصہ رد کردیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ ری پبلیکنوں کا کچھ نہ کرنے کا جو منصوبہ ہے اُس کے برعکس ڈیموکریٹوں کو اِس بِل کے پیچھے متحد ہوجانا چاہیئے، تاکہ، معیشت میں نئی جان ڈال دی جائے۔
مسٹر ریڈ کو اصرار ہے کہ کروڑ پتیوں کے ٹیکس کا معاملہ ڈیموکریٹوں کو متحد کرے گا اور اگلے چند روز میں اِس بِل کے لیے ضروری ووٹ میسر ہوں گے۔
’فلاڈیلفیا انکوائرر‘ میں کالم نگار E J Dionneرقمطراز ہیں کہ وال اسٹریٹ مخالف مظاہرین نے امریکی سیاست میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔
امریکی اقتدار کے ارتکاز کے ہمیشہ خلاف رہے ہیں۔’ ٹی پارٹی‘ کو وفاقی حکومت کے بارے میں یہ تاثر پھیلانے میں بڑی کامیابی ہوئی تھی کہ اس کے پاس حد سے زیادہ اختیار ہے۔ لیکن، اب امریکی شہریوں کا ایک سرگرم اور سخت ناراض طبقہ اِس بات پر مصر ہے کہ اقتدار کے جِس ارتکاز پر امریکیوں کو تشویش ہونی چاہیئے وہ اِس ملک کے مالیاتی نظام میں ہے۔
اِسی دوران، کانگریس میں ری پبلیکن ارکان اِس وقت اپنے کئی ایک غیر مقبول مؤقفوں کا دفاع کر نے میں مصروف ہیں، جب کہ ووٹر بالعموم ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف ہیں۔ لیکن اُن کا ضرور یہ ماننا ہے کہ ٹیکسوں کے بوجھ کا زیادہ حصہ صاحبِ ثروت لوگوں کو دینا چاہیئے۔
نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پر ’یو ایس اے ٹوڈے ‘ایک اداریے میں کہتا ہے کہ 20سال قبل نوزائیدہ بچوں کو زندہ رکھنے میں امریکہ کی کارکردگی کیوبا، پولینڈ اور ایسٹونیا جیسے ملکوں کے مقابلے میں بہتر تھی۔ لیکن، اب یہ صورت نہیں ہے اور امریکہ اِس شعبے میں دنیا کے ملکوں میں اکتالیسویں نمبر پر ہے۔
اخبار کا سوال ہے کہ آخر ایک ایسے ملک میں جو کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں صحت کی نگہداشت پر فی کس کہیں زیادہ خرچ کرتا ہے ایسا کیوں ہے؟ صحت کے عالمی ادارے کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے193ملکوں میں سے بدترین کارکردگی والے ملکوں کے مقابلے میں امریکہ کی کارکردگی اتنی بُری نہیں ہے۔
سب سے زیادہ نوزائیدہ بچے افغانستان میں مرتے ہیں جہاں 19بچوں میں سے ایک پہلے ہی مہینے میں مرجاتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں، امریکہ میں شرح 233نوزائیدہ بچوں میں ایک ہے۔ لیکن یہ کارکردگی کئی اور ملکوں کے مقابلے میں بُری ہے۔ مثلاً جاپان میں یہ شرح 909میں ایک، فرانس میں 455میں سے ایک، لیتھوانیہ میں 385میں سے ایک اور کیوبا میں 345میں سے ایک ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: