امریکی فوج کے ادارے سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے بتایا ہے کہ افغانستان سے 31 مئی تک امریکی فوج کے انخلا کا 30 سے 44 فی صد کام مکمل ہو گیا ہے۔
دوسری طرف افغانستان کے وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ بین الاقوامی فضائی فورسز انخلا کے بعد بھی اگر ضرورت پڑی، تو افغان سیکیورٹی کی مدد کر سکتی ہیں۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اقوامِ متحدہ کی ایک ٹیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں حالیہ دنوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات امن مذاکرات میں پیش رفت کے متقاضی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سینٹ کام نے بتایا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی طرف سے انخلا کے فیصلے کے بعد افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے عمل میں تیزی آ رہی ہے۔
فوجی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے تقریباً نصف امریکی فوج اور فوجی سازو سامان واپس بھیجا جا چکا ہے۔ اسی طرح بھاری مقدار میں اس سامان کو تلف کر دیا گیا ہے جو ساتھ نہیں لے جایا جا سکتا۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر اب تک لگ بھگ اتنا سامان افغانستان سے واپس بھجوایا جا چکا ہے جتنا کہ 300 سی-17 طیاروں پر لادا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ڈیفینس لاجسٹکس ایجنسی کے پاس 13 ہزار آلات کے پرزے لائے گئے ہیں تاکہ انہیں تلف کیا جا سکے۔
امریکی سینٹرل کمان نے منگل کے روز کہا کہ چھ فوجی تنصیبات افغان سیکیورٹی فورسز کے حوالے کی جا چکی ہیں۔ جب کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید فوجی اڈے افغان فورسز کو سونپ دیے جائیں گے۔
سینٹ کام کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ متوقع طور پر آئندہ دنوں میں مزید فوجی اڈے اور فوجی اثاثے افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیے جائیں گے جو اپنے ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
بگرام ایئربیس کا کیا ہو گا؟
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے اپنی خبر میں افغان اور امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ آئندہ 20 روز میں بگرام ایئربیس افغان حکومت کے حوالے کر دے گا۔
پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے منگل کو بگرام ایئربیس کی حوالگی کی تاریخ سے متعلق تصدیق کرنے سے معذرت کی ہے۔ تاہم انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ واضح ہے کہ بگرام بیس حوالے کی جائے گی۔"
واضح رہے کہ افغانستان میں فضائی آپریشن کے لیے بگرام ایئر بیس مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور امریکی فوج کے لیے اس بیس نے ایک اہم کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کا کردار ادا کیا ہے۔
افغان حکام نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ امریکہ نے قندھار ایئرفیلڈ پہلے ہی چھوڑ دی تھی۔ جہاں بڑے پیمانے پر سیکیورٹی تنصیبات موجود تھیں اور ایک موقع پر 30 ہزار اتحادی فوجی اور کنٹریکٹر وہاں تعینات تھے۔
یاد رہے کہ سینٹ کام نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں قانون سازوں کے سامنے ایک سماعت میں کہا تھا کہ افغانستان سے 25 فی صد کے قریب انخلا مکمل ہو چکا ہے۔
ادھر وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق افغانستان کے وزیر دفاع اسداللہ خالد نے کہا ہے کہ غیر ملکی فضائی افواج، اگر ضرورت پڑی تو انخلا کے بعد بھی افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کر سکتی ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں وضاحت نہیں کی کہ بین الاقوامی فضائی فورسز کس طرح کی امداد فراہم کر سکتی ہیں۔
اسد اللہ خالد نے کہا کہ بین الاقوامی برادری نے 2024 تک افغانستان کے ساتھ مالی مدد، تربیت و ساز و سامان فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار سکیورٹی امتحان پاس کرنے والے نئے عملے سے پیر کو گفتگو کے دوران کیا۔
فوجی امور کے ماہر حکمت اللہ حکمت کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہونا چاہیے کہ بین الاقوامی فورسز کس قانونی دائرہ کار کے اندر افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کی مدد کریں گی۔
ایک اور تجزیہ کار اسداللہ ندیم نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ فضائی آپریشن کا جاری رکھنا ایک غلطی ہو گی۔
ایک سابق افغان طالبان عہدیدار سید اکبر آغا نے کہا ہے کہ اگر غیر ملکی دستے بار بار افغانستان آتے ہیں تو یہ اچھا نہیں ہو گا۔ بہتر ہے کہ جنگ کی تیاری کی بجائے امن کوششوں کو فروغ دیا جائے۔
افغانستان سے امریکی اور بین الاقوامی انخلا کا عمل ایسے میں جاری ہے جب ملک کے اندر طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی افغانستان میں موجود ٹیم نے کہا ہے کہ تمام فریقین کو امن مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
افغانستان میں یو این مشن نے بتایا ہے کہ گزشتہ تین دن میں ملک میں سات مختلف واقعات میں 23 عام شہری ہلاک اور 49 زخمی ہو گئے ہیں۔ تشدد کے یہ واقعات قندھار، ہلمند، ارزگان، سری پل، پروان اور کپیسا کے صوبوں میں پیش آئے۔
اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ بہت سے سویلینز افغان نیشنل آرمی اور طالبان، دونوں متحارب فریقوں کی کارروائیوں میں ہلاک اور زخمی ہو رہے ہیں۔ مشن نے کہا ہے کہ وہ اپنی رپورٹ دونوں فریقوں کو بھجوا رہا ہے اور ان پر زور دے رہا ہے کہ وہ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔