افغانستان نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کی افواج کے افغانستان سے انخلا سے پہلے طالبان کے ٹھکانے بند اور شدت پسند گروہ کی حمایت ختم کرنے سے متعلق عملی اقدامات کرے۔
افغان حکومت کی ترجمان دوا خان مینہ پال کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مطالبات انتہائی واضح ہیں۔ افغانستان سمجھتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور حمایت موجود ہے۔
مینہ پال نے افغان صدر اشرف غنی کے رواں ماہ 14 مئی کو کیے گئے دعوے کو دہرایا جس میں افغان صدر کا ایک میگزین کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ طالبان پاکستان سے مالی امداد حاصل اور بھرتیاں کرتے ہیں۔
افغان صدر کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ طالبان کی مشاورتی کمیٹیوں کے نام بھی پاکستانی شہروں جیسے پشاور شوری، کوئٹہ شوری اور میران شاہ پر رکھے گئے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ ممالک کے درمیان الفاظ کی جنگ رواں ماہ مئی میں اس وقت شدت اختیار کر گئی کہ جب افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب نے مشرقی صوبے ننگر ہار میں طالبان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قربان کر سکتی ہے۔
حمداللہ محب کا طالبان کو پیغام دیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو نہ تو ان کی ضرورت ہے اور نہ پاکستان، طالبان کو افغانستان میں حکومت دلوا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے طالبان کو جو کچھ بتایا ہے، وہ ایک جھوٹ ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو جو چیز طالبان سے درکار ہے وہ اپنے مقاصد کے لیے انہیں قربان کر رہے ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے وٹس ایپ پیغام میں ان الزامات کو غیر ذمہ دارانہ بیانات اور بے بنیاد الزامات قرار دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے اسلام آباد میں تعینات افغان سفارت کار کو اپنے خدشات سے آگاہ کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا عمل شروع ہو گیا ہے اور امریکہ اپنی سفارتی کوششوں کے ذریعے کابل اور اسلام آباد کو قریب لانے کی کوششوں میں ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن بحال کرنے کی امریکی کوششوں کی بھرپور حمایت کرے گا۔