اِن دنوں، امریکہ میں قرض کے بحران سے نمٹنے کے طریقوں پر ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے درمیان بحث کا ایک سلسلہ جاری ہے جِس نے ملکی سیاست اور معیشت کے مختلف شعبوں کو تعطل کا شکار کر رکھا ہے۔ اِن میں ایک شعبہ ہاؤزنگ کا ہے جو قرض کے بحران کی ایک سب سے بڑی وجہ اور سب سے متاثرہ شعبہ ہے ۔ امریکہ میں اس وقت گیارہ ملین امریکی مکانات کے قرضوں کے بحران کا شکار ہیں ۔اُن کے مکانات کےقرضوں کی مالیت مکان کی اصل مالیت سے زیادہ ہے ۔
اخبار ’ہیوسٹن کرانیکل‘ نے اپنے ایک اداریے میں صدر اوباما کی طرف سے مکانات کے قرضے کے بحران کو دور کرنے کے لیے پیش کیے جانے والے ایک نئے منصوبے کو موضوع بنا یا ہے ۔اخبار لکھتا ہے کہ صدر اوباما نے اس ہفتے جو نیا منصوبہ پیش کیا ہے اس میں مکانات کے قرضے کے بحران میں مبتلا ہونے والے امریکیوں کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے ا نہیں اپنے قرضےسودکی موجودہ ریکارڈ کم شرح پر ری فائننانس کرانے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، چاہے ان کے ذمے اپنے مکان کی اصل مالیت سے کہیں زیادہ کا قرض واجب الادا ہو ۔
اخبار اس منصوبے کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کے تحت بنکوں کو ریفائناسنگ کے عمل میں شرکت اور ری فائنانسنگ کی معمول کی فیسوں میں کمی کے لیےترغیبات دی جائیں گی اور اس پروگرام کےتحت تیس سال سے زیادہ عرصے پر محیط قرض کی مدت میں کمی لانے کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی اور یوں اس سے نہ صرف مکانات کے قرضوں کے بحران میں مبتلا امریکیوں کی مدد ہو گی بلکہ ملکی معیشت پر بھی بالاآخر اس کے اچھے اثرات مرتب ہو ں گے۔
تاہم، اخبار اس منصوبے کے کچھ منفی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کے تحت بہت زیادہ قرض لینے والے امریکیوں کا بوجھ کم قرضے لینے والے امریکیوں اورمارٹگٹیج کے بزنس میں سرمایہ کاری کرنےو الوں کو بٹانا پڑے گا ۔ جو ان کے ساتھ ایک نا انصافی ہو گی جب کہ اخبار لکھتا ہے کہ لوگوں کے ذاتی نقصانات کو بہت سے ٹیکس دہندگان پر منتقل کرنے سے آئندہ مکانات خریدنےوالو ں کے لیے بھی ایسی ہی غلطیاں دہرانے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور یوں ایک بحران کا حل گویا ایک اور بحران کو جنم دے سکتا ہے ۔
اخباراپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس پروگرام کے حتمی ضابطے تو نومبر کے وسط میں سامنے آئیں گے۔ لیکن اگر یہ منصوبہ قرض کی مشکلات سے نکالنے والوں ، اس سلسلے میں سرمایہ کاری کرنے والوں اور ٹیکس دہندگان پر دباؤ ڈالے بغیر مکانات کے مالکان کو کوئی سہولت فراہم کرتا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔لیکن اخبار مشورہ دیتا ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہاؤزنگ مارکیٹ مکانات کی طلب اور رسد میں کم تر قیمت پر از سر نو توازن قائم کرے اور حکومت رہائشی مکانات کے معاملات میں دخل اندازی کی بجائے اس سے باہر نکلنے پر غور کرے ۔
اور امریکہ میں اگرچہ قرض کے بحران پر دونوں جماعتوں کے درمیان جاری بحث کے نتیجے میں قوم کو کچھ زیادہ اچھی خبریں سننے کو نہیں مل رہیں لیکن انرجی کا شعبہ ایسا شعبہ ہے جس میں دونوں جماعتوں کی کوششیں بالآخر اب ملک بھر کے لیے اچھی خبریں سامنے لارہی ہیں اور جس میں ترقی کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔ اخبار ہیوسٹن کرانیکل نے اپنےایک اداریے میں انرجی کے شعبے میں اس تیز تر ترقی کو موضوع بنایا ہے ۔ اخبار بش انتظامیہ کے دور میں 2005 اور 2007 میں انرجی کی پالیسیوں میں تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان کے نتیجے میں اندرون ملک تیل کی پیداوار میں اضافے، اس کی کھپت میں کمی ، قیمتوں میں اضافے اور توانائی کے شعبے میں خود انحصاری پر زور دیا گیا ۔
لیکن اخبار صدر اوباما کے متعدد اقدامات کو بالخصوص اس ترقی کی وجہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ صدر اوباما نے انرجی کے شعبے میں ریسرچ پرسرمایہ کاریوں میں اضافہ کیا ، اس شعبے میں اختراعات اور اختراعی بزنس کے نئے مواقع پیدا کیے ، متبادل توانائی پر بھر پر توجہ دی اس کے ساتھ ساتھ شفاف توانائی کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے نجی سیکٹر پر سرمایہ کاری پر زور،ٹیکسوں میں چھوٹ اور قرضوں کی سہولت میں اضافے کے ایسے اقدامات کیے جن سے اس صنعت کے فروغ میں نمایاں طورپر مدد ملی اور اخبار لکھتاہے کہ اس کامیابی پر صدر اوباما یقیناً مناسب تعریف کے حقدارہیں ۔
اور اخبار ’نیوز ڈے‘ نے اپنے ایک اداریے میں لییبا میں نیٹو کے مشن کے اختتام کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر اوباما کی جانب سے لیبیا کی شورش میں امریکی فوج کے محدود عمل دخل کا فیصلہ ایک موزوں فیصلہ تھا ۔ کیوں کہ نیٹو کی فضائی مدد نے عام شہریوں کے قتل عام کے معمر قذافی کے مذموم ارادے کا راستہ روکا اور اس کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ صدر اوباما کی اس پالیسی پر بہت اعتراضات ہوئے لیکن اس کے نتیجے میں امریکہ کو لیبیا کی سر زمین پر قدم رکھے بغیر اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ لیبیا میں ایک جمہوری حکومت بنانے کا دشوار مرحلہ ابھی باقی ہے تاہم ایک بھی امریکی فوجی کے جانی نقصان کے بغیر لیبیا میں امریکی مشن پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے ۔ جو اخبار کے نزدیک صدر اوباما کی کامیابیوں کی فہرست میں یقیناً ایک اضافہ ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: