اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں جنوبی سوڈان کے آزاد اور خود مختار ملک بننے کو اس کے عوام کی ایک ایسی فتح قرار دیا ہے جس کے وہ حقدار تھے۔ تاہم اخبار لکھتا ہے کہ دار الحکومت جوبا میں جشن کی تقریبات اس سنجیدہ حقیقت کو نہیں تبدیل کر سکتیں کہ اس نئے ملک کو ابھی بہت سے مسائل سے نمٹنا ہے جس کےلئے اس کے لوگوں کو کئی عشروں تک سخت محنت کرنا ہو گی ۔ اخبار لکھتا ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کی بنیادی زمہ داری جنوبی سوڈان پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن امریکہ اور بین الاقوامی برادری کو بھی اس ز مہ داری میں اپنا حصہ شامل کرنا ہو گا جس نے جنوبی سوڈان کو یہ آزادی حاصل کرنے میں راہنمائی کی ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ افریقہ کا یہ 54 واں ملک ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں سب سے آخری نمبر پر ہے جہاں بیشتر لوگ ایک ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں اور دس فیصد سے زیادہ بچے پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور جس کے لگ بھگ 75 فیصد بالغ افراد ناخواندہ ہیں ۔ اور ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ جنوبی اور شمالی سوڈان کے درمیان 2005 کے امن معاہدے کے بڑے بڑے امور ابھی تک حل طلب ہیں مثلاً یہ کہ تیل سے مالا مال علاقے Abyei کا کنٹرول کس کے پاس ہو گا ،جہاں لڑائی بھی شروع ہو گئی ہے، اقلیتوں کی شہریت کا تحفظ ، حتمی سرحدوں کا تعین ، تیل کی آمدنی کی تقیسم وغیرہ کیسے ہو گی ۔
اخبار لکھتا ہے کہ دونوں سوڈان ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں جنوبی سوڈان جہاں تیل کے زیادہ تر ذخائر ہیں مارکیٹ تک تیل پہنچانےکے لیے شمال کی پائپ لائن کی ضرورت ہے سوڈان کو اپنے بل چکانےکےلئے تیل کی آمدنی کی ضرورت ہے ۔ دونوں کوغیر ملکی سرمایہ کاری کی اور شمال کو قرض میں چھوٹ کی ضرورت ہے اور دونوں کو اسی صورت میں بین الاقوامی مدد مل سکتی ہے اگر ان کے ہاں امن ہو۔
اخبار لکھتا ہے اس ضمن میں امریکہ اور اس کے شراکت داروں نے ستمبر میں جنوبی سوڈان کےلیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی پیش کش کی ہے جس میں جنوبی سوڈان کے راہنماؤں کو اپنے ملک میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی سے متعلق منصوبے پیش کر نے کا موقع ملے گا۔ امریکہ نے جنوبی سوڈان کو تعلیم ، اور ہاؤزنگ میں مدد کے لیے 300 ملین ڈالر دیے ہیں اور مزید امداد کا بھی وعدہ کیا ہے تاہم اخبار لکھتا ہے کہ جنوبی سوڈان کو بین الاقوامی معاونت صر ف اس صورت میں ملنی چاہیے اگر وہ دونوں ملکوں میں استحکام لانے کے لیے خرطوم کے ساتھ تعمیری طور پر کام کرے ۔
اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں صومالیہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردی کے ملزم عبد القادر کو سویلین مقدمے کے لیے امریکہ لانے کے اوباما انتظامیہ کے فیصلے اور اس پر ری پبلکنز کی تنقید کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ عبد القادر کو جس پر یمن میں القاعدہ اور صومالی گروپ الشباب کو مادی مدد فراہم کرنے کے نو الزامات عائد ہیں اپریل میں گرفتار کرنے کے بعد امریکی بحریہ کے ایک بحری جہاز پر پوچھ گچھ کی کارروائی کے بعد نیو یارک لایا گیا ۔
اخبار لکھتا ہے کہ ری پبلکنز کا یہ اعتراض کہ دہشت گردی کے کسی ملزم کو امریکہ نہیں لایا جا سکتا کیوں کہ اس پر مقدمہ چلانا عوا م کے لیے کوئی خطرہ پیدا کر سکتا ہے اس لیے معقول دکھائی نہیں دیتا کہ گیارہ ستمبر کے سازشی زکریا موسوی سمیت متعدد دہشت گردوں پر اسی طرح مقدمات چلائے گئے ہیں لیکن عوام کے لیے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ اور جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ عبد القادر کو امریکی شہریوں کے تمام حقوق نہیں دیے جانے چاہیں تو اخبار کے بقول یہ تو در اصل دنیا کے سامنے اس چیز کا عملی مظاہرہ ہوگا کہ امریکہ اپنے بد ترین دشمن کو بھی مناسب قانونی ضابطوں کی پیش کش کرنے کو تیا ر ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ کانگریس گوانٹا نامو بے کے قیدیوں کی امریکہ منتقلی پر پہلے ہی پابندی عائد کر چکی ہے اور ایوان ملک سے باہر کسی بھی جگہ سے قیدیوں کو ملک میں لانے پر پابندی کے بل کی منظوری دے چکا ہے ۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ اس قانون سے ان جیسے سویلین مقدمات چلانے کا امکان ختم ہو جاتا ہے ، جن کا عبد القادر کو سامنا ہے ، اس لیےاخبار مشورہ دیتا ہے کہ صدر اوباما کو چاہیے کہ وہ ا س سلسلے میں اپنے موقف کو آگے لے کر چلیں اور ٹھوس جواز سامنے لاتے ہوئے اس قانون کو ویٹو کریں ۔
اخبار شکاگو ٹریبون نے جمعے کے روز امریکی لیبر ڈپارٹمنٹ کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہونے والی بے روزگاری کی مایوس کن شرح کو موضوع بناتے ہوئےا س ضمن میں نجی اور سرکاری شعبوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ تیس سال میں نجی سیکٹر نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ اقتصادی انحطاط کو نظر انداز کرنے سے صورتحال میں سوائے مزید بگاڑ کے کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے نقصان پر قابو پانے کے لیے کمپنیوں کو تیز ی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ ہی وجہ تھی کہ جب تازہ ترین کساد بازاری شروع ہوئی تو کمپنیوں کے ارباب اختیار نے ملازمتوں میں تیزی سے کٹوتیاں کیں اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کی جو افراد اور ملک کے لیے تکلیف دہ تو تھے لیکن ان سے کمپنیوں کو کساد بازاری سے بہتر طریقے سے نکلنے اور دوبارہ ملازمتیں دینے کا سلسلہ شروع کرنےمیں آسانی ہوئی ۔ جبکہ اخبار لکھتا ہے کہ پبلک سیکٹر نے اس سلسلے میں بر وقت ا اقدامات نہیں کیے جس کے نتائج کی عکاسی جمعے کے روز امریکہ میں بے روزگاری سے متعلق رپورٹ میں ہوئی ۔
اخبار لکھتا ہے کہ حکومت نے ہر سطح پر حقائق کو نظر انداز کیا اور محصولات کی کمی کو زیادہ تر قرض لے کر اوربعض مرتبہ پنشن کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے پورا کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب اس کے پاس ریٹائر منٹس اور ملازمتوں میں کٹوتیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بہت کم وسائل باقی ہیں ۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس وقت ریاستی دارالحکومتوں ، سٹی کونسلز اور ملک بھر کے اسکول بورڈز کے پاس ان کٹوتیوں کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہا ہے جو انہیں اس وقت کر لینی چاہیئں تھیں جب انہوں نے پہلی بار محصولات میں کمی دیکھی تھی ۔ تاہم اخبار مشورہ دیتا ہے کہ حکومت کے پاس اس وقت ایک یہ راہ ضرور کھلی ہے کہ وہ یہ کٹوتیاں دانشمندانہ طریقے سے اور اس انداز سے کرے کہ اداروں کی کارکردگی بھی متاثر نہ ہو اور اخراجات میں کمی بھی ممکن ہو سکے ۔