صدر اوباما نے ریڈیو پر اپنے ہفتہ وار خطاب میں ملک کی اقتصادی صورتِ حال کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ برسوں سے امریکی حکومت آمدنی سے زیادہ خرچ کرتی آئی ہے, جِس کا نتیجہ ملک میں قرضوں کا بوجھ ہے۔ اور، اگر ہم نےکوئی فوری اقدام نہ کیا، تو امریکی خاندانوں پر سود کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا اور ہمیں تعلیمی اور صحتِ عامہ جیسے شعبوں میں کٹوتیوں پر مجبور ہونا پڑے گا۔
صدر نے قومی قرضے کی حد میں اضافے سے متعلق واشنگٹن میں جاری مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار دونوں پارٹیوں کو قرار دیا۔
صدر اوباما کے الفاظ میں ، ’اب واشنگٹن میں لیڈر مسئلے کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی پارٹی بھی الزام سے مبریٰ نہیں، اور دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کچھ اقدام کریں۔‘
صدر نے کہا کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز کو اپنے اختلافات پسِ پشت ڈال کر مل کر کام کرنا ہوگا۔اُنھوں نے کہا کہ ہم سب کو سمجھوتے پر آمادہ ہونا ہوگا، ورنہ ہم کل کچھ نہیں کر پائیں گے۔
صدر نے کہا کہ، اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک متوازن رجحان اپنائیں۔ ہمیں ایک ایسا متوازن طریقہٴ کار اپنانا ہوگا جو بجٹ سے فالتو اخراجات ختم کرکے اُن منصوبوں سے نجات دے جِن پر بلا وجہ اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور اُنھیں ہم معمول کے حالات میں کم نہیں کرپاتے۔
صدر اوباما نے کہا کہ اگرچہ بجٹ میں کٹوتیاں ضروری ہیں مگر ہم اوسط طبقے کے لوگوں سے تقاضا نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے زیادہ ادا کریں جب تک کہ ہم بڑی بڑی کارپوریشنوں سے اُن کےحصے کی ادائگی کے لیے نہ کہیں۔
صدر نے مزید کہا کہ آئندہ دِنوں میں تفصیلات طے کرنے پر خاصی بحث ہوگی مگر اِس بجٹ کے نتیجے میں ہم اُس سمجھوتے پر پہنچ پائیں گے جو ہمارے ملک کے لیے بہتر ہے۔