واشنگٹن —
وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی پر طالبان نے اپنی گرفت اور بھی مضبوط کر لی ہے۔
اخبار سرکاری عہدیداروں اور مقامی لوگوں کے حوالے سے کہتا ہے کہ یہ پانچ ماہ سے جاری سرکاری کریک ڈاؤن کے باوجود ہو رہا ہے، اور اخبار کا اندازہ ہے کہ وزیر ا عظم نواز شریف آج کل القاعدہ سے وابستہ قبائیلی علاقوں کے طالبان کے ساتھ ایک امن سمجھوتہ کرنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر وہ ناکام ہوتی ہیں تو پھر اُس صورت میں فوجی آپریشن ہو گا۔ جس کا سب سے زیادہ خمیازہ کراچی شہر کو بُھگتنا پڑے گا۔
کراچی کے انسداد دہشت گردی سے وابستہ ایک سر کردہ عہدیدار کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ امن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں کراچی کے دہشت گردی کی زبر دست لپیٹ میں آ نے کا اندیشہ ہے اور جیسا کہ سکیورٹی کے عہدہ دار کہتے ہیں، پاکستانی طالبان پوری قوم کے لیے خطرہ ہیں، اور کراچی اُن کی مالی شہہ رگ ہے۔ جہاں بھتّہ خوری، زمینوں پر نا جائز قبضہ کر کے، اغوا کاری اور ڈکیتیوں کی بدولت پیسہ جمع کیا جاتا ہے اور افغان سرحد سے ملحق قبائیلی علاقے میں طالبان قیادت کو روانہ کیا جاتا ہے۔
جنوری میں انسداد دہشت گردی کے ایک کہنہ مشق پولیس افسر چوہدری اسلم کو جس طرح ہلاک کیا گیا، اس سے طالبان کی استعداد کا اندازہ ہوتا ہے،اور اس کی وجہ سے خود پولیس میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
جنوری ہی کے مہینے میں طالبان نے پولیس افسروں پر حملے کیے، تین صحافیوں کو ہلاک کیا، اور ایک درگاہ پر چھ عقیدت مندوں کے گلے کاٹ دیے۔ کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ جنوری میں 27 پولیس اہل کاروں کو ہلاک کیا گیا۔ پچھلے سال اس طرح ہلاک کیے جانے والے پولیس اہل کاروں کی تعداد 168 تھی۔
اخبار نے مقامی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کراچی میں طالبان اور دوسرے جنگجوؤں کے خلاف جو کارروائی شروع کی گئی ہے۔
وُہ ان کے نزدیک اس شہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا آخری موقع ہے لیکن اس کارروائی پرعمل درآمد کا انحصار سندھ کی صوبائی حکومت پر ہے، جس پر حزب اختلاف پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے، اور کراچی کی پولیس اُسی کے قبضہ قدرت میں ہے، لیکن اخبار کی اطلاع کے مطابق رینجرز کے ساتھ جو اسلام آباد اور کراچی کے سامنے جواب دہ ہے، کشیدگی کے آثار نظر آ رہے ہیں،اخبار نے اس حقیقت کی طرف بھی توجّہ دلائی ہے، کہ پچھلے سال کراچی پولیس کا سربراہ پانچ بار بدلا گیا۔ جس کی وجہ سے جرائم کے کارروائی میں رخنہ پڑا ، پولیس کے موجودہ سربراہ شاہد حیات کے حوالے سے اخبار کہتا ہے، کہ پولیس کی مجموعی 27 ہزار کی نفری میں سے ایک وقت میں سات ہزار اہل کار سڑکوں پر ڈیوٹی کے لیے دستیاب ہوتے ہیں جب کہ سیاست دانوں اور دوسرے عہدہ داروں کی ذاتی حفاظت پر 9 ہزار اہل کار مامور ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان جیسی جہادی تنطیموں کے خلاف کارروائی کا آغاز ابھی چند ہی ہفتے ہوا تھا۔ اور شاہد حیات کو شکایت ہےکہ اُن سے پولیس کی نفری کی اتنی قلیل تعداد کی مدد سے کراچی پر کنٹرول کرنے کی توقّع کی جا رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہل کار آئے دن ہلاک کیے جا رہے ہیں، اس کے باوجود وُہ لڑ رہے ہیں۔
اخبار، سندھ کی صوبائی حکومت کے حوالے سے بتاتا ہے، کہ پولیس اور رینجرز نے ستمبر سے اب تک دس ہزار سے زیادہ چھاپے مار کر تیرہ ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے، لیکن عہدہ داروں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر کے ارد گرد کے بیشتر دور اُفتادہ غریب محلّے ان چھاپوں سے بچے رہے۔ جو تحریک طالبان پاکستان کے قبضہٗ قدرت میں ہیں۔ اس میں نئے امریکی قونصل خانے کے احاطے سے متصل محلہ بھی شامل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کراچی کے کثیر نسلی شہر میں تحریک طالبان پاکستان سب سے زیادہ جارحانہ تنظیموں میں شامل ہے اور پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری کے اختتام تک اُس کے محض 63 ارکان حراست میں لیے گئے ہیں، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے 296 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 101 کارکن گرفتار ہوئے ہیں۔ اسی طرح نام نہاد لیاری گینگ کے بھی 171 کارکن پکڑے گئے ہیں۔
سکیورٹی اور شہری منصوبہ بندی سے متعلّق عہدہ داروں کے ساتھ گفتگو پر مبنی وال سٹریٹ جرنل کی تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے،کہ کراچی کے ایک تہائی رقبے یعنی 470 مربع میل علاقے پر تحریک طالبان کا قبضہ ہے۔ جہاں کم از کم 25 لاکھ نفوس آباد ہیں،ان علاقوں کے شہریوں کے حوالے سے اخبار کہتا ہے، کہ پچھلے ایک برس کے دوران تحریک طالبان پاکستان کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی ہے۔
پولیس عہدہ داروں کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ کراچی میں عرصہٗ دراز سے موجود طالبان کے جنوبی وزیرستان کے بڑے محسود قبیلے کے علاوہ اب مُہمند قبائلی علاقوں کا طالبان دھڑہ بھی شہر میں پھیلتا جا رہا ہے، لیاری جیسے غیر پشتون علاقوں میں بھی اسلامی انتہا پسندوں کا اثرو نفوذ ہے۔ جہاں طالبان کے اتحادی لشکر جھنگوی کا بھی اڈّہ ہے۔
اخبار کی تحقیق کے مطابق کراچی کی مجموعی 178 یونین کونسلوں میں سے 33 پر طالبان کا تصرّف ہے۔
لکھے پڑے لوگ بھی اُن کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں، جن میں غیر پشتون بھی شامل ہیں، اور وُہ کراچی سے باہر علاقوں بشمول ہب اور جام شورو کے علاقوں میں پھیل رہے ہیں،ایک تاجر کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ اپنے زیر انتظام علاقوں میں طالبان عام شہریوں اور تاجروں پر ٹیکس لگا رہے ہیں،انہوں نے جھگڑے چُکانے کے لیے اپنی عدالتیں بھی قائم کر رکھی ہیں،جو زمین کی ملکیت پر تنازعوں کا فیْصلہ کرتی ہیں، یا یہ کہ پاور لائینوں سے کتنی بجلی چوری کی جا سکتی ہے، طالبان اپنی برادری سے روپیہ بھی اینٹھتے ہیں، 40 ہزار روپے کی آمدنی پر طالبان ایک ہزار وصول کرتے ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ایک سرکردہ کارکُن بشیر جان نے اخبار کو بتایا کہ طالبان کا کراچی پر مکمل تصرّف ہے اور وُہ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔
اخبار سرکاری عہدیداروں اور مقامی لوگوں کے حوالے سے کہتا ہے کہ یہ پانچ ماہ سے جاری سرکاری کریک ڈاؤن کے باوجود ہو رہا ہے، اور اخبار کا اندازہ ہے کہ وزیر ا عظم نواز شریف آج کل القاعدہ سے وابستہ قبائیلی علاقوں کے طالبان کے ساتھ ایک امن سمجھوتہ کرنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر وہ ناکام ہوتی ہیں تو پھر اُس صورت میں فوجی آپریشن ہو گا۔ جس کا سب سے زیادہ خمیازہ کراچی شہر کو بُھگتنا پڑے گا۔
کراچی کے انسداد دہشت گردی سے وابستہ ایک سر کردہ عہدیدار کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ امن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں کراچی کے دہشت گردی کی زبر دست لپیٹ میں آ نے کا اندیشہ ہے اور جیسا کہ سکیورٹی کے عہدہ دار کہتے ہیں، پاکستانی طالبان پوری قوم کے لیے خطرہ ہیں، اور کراچی اُن کی مالی شہہ رگ ہے۔ جہاں بھتّہ خوری، زمینوں پر نا جائز قبضہ کر کے، اغوا کاری اور ڈکیتیوں کی بدولت پیسہ جمع کیا جاتا ہے اور افغان سرحد سے ملحق قبائیلی علاقے میں طالبان قیادت کو روانہ کیا جاتا ہے۔
جنوری میں انسداد دہشت گردی کے ایک کہنہ مشق پولیس افسر چوہدری اسلم کو جس طرح ہلاک کیا گیا، اس سے طالبان کی استعداد کا اندازہ ہوتا ہے،اور اس کی وجہ سے خود پولیس میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
جنوری ہی کے مہینے میں طالبان نے پولیس افسروں پر حملے کیے، تین صحافیوں کو ہلاک کیا، اور ایک درگاہ پر چھ عقیدت مندوں کے گلے کاٹ دیے۔ کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ جنوری میں 27 پولیس اہل کاروں کو ہلاک کیا گیا۔ پچھلے سال اس طرح ہلاک کیے جانے والے پولیس اہل کاروں کی تعداد 168 تھی۔
اخبار نے مقامی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کراچی میں طالبان اور دوسرے جنگجوؤں کے خلاف جو کارروائی شروع کی گئی ہے۔
وُہ ان کے نزدیک اس شہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا آخری موقع ہے لیکن اس کارروائی پرعمل درآمد کا انحصار سندھ کی صوبائی حکومت پر ہے، جس پر حزب اختلاف پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے، اور کراچی کی پولیس اُسی کے قبضہ قدرت میں ہے، لیکن اخبار کی اطلاع کے مطابق رینجرز کے ساتھ جو اسلام آباد اور کراچی کے سامنے جواب دہ ہے، کشیدگی کے آثار نظر آ رہے ہیں،اخبار نے اس حقیقت کی طرف بھی توجّہ دلائی ہے، کہ پچھلے سال کراچی پولیس کا سربراہ پانچ بار بدلا گیا۔ جس کی وجہ سے جرائم کے کارروائی میں رخنہ پڑا ، پولیس کے موجودہ سربراہ شاہد حیات کے حوالے سے اخبار کہتا ہے، کہ پولیس کی مجموعی 27 ہزار کی نفری میں سے ایک وقت میں سات ہزار اہل کار سڑکوں پر ڈیوٹی کے لیے دستیاب ہوتے ہیں جب کہ سیاست دانوں اور دوسرے عہدہ داروں کی ذاتی حفاظت پر 9 ہزار اہل کار مامور ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان جیسی جہادی تنطیموں کے خلاف کارروائی کا آغاز ابھی چند ہی ہفتے ہوا تھا۔ اور شاہد حیات کو شکایت ہےکہ اُن سے پولیس کی نفری کی اتنی قلیل تعداد کی مدد سے کراچی پر کنٹرول کرنے کی توقّع کی جا رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہل کار آئے دن ہلاک کیے جا رہے ہیں، اس کے باوجود وُہ لڑ رہے ہیں۔
اخبار، سندھ کی صوبائی حکومت کے حوالے سے بتاتا ہے، کہ پولیس اور رینجرز نے ستمبر سے اب تک دس ہزار سے زیادہ چھاپے مار کر تیرہ ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے، لیکن عہدہ داروں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر کے ارد گرد کے بیشتر دور اُفتادہ غریب محلّے ان چھاپوں سے بچے رہے۔ جو تحریک طالبان پاکستان کے قبضہٗ قدرت میں ہیں۔ اس میں نئے امریکی قونصل خانے کے احاطے سے متصل محلہ بھی شامل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کراچی کے کثیر نسلی شہر میں تحریک طالبان پاکستان سب سے زیادہ جارحانہ تنظیموں میں شامل ہے اور پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری کے اختتام تک اُس کے محض 63 ارکان حراست میں لیے گئے ہیں، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے 296 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 101 کارکن گرفتار ہوئے ہیں۔ اسی طرح نام نہاد لیاری گینگ کے بھی 171 کارکن پکڑے گئے ہیں۔
سکیورٹی اور شہری منصوبہ بندی سے متعلّق عہدہ داروں کے ساتھ گفتگو پر مبنی وال سٹریٹ جرنل کی تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے،کہ کراچی کے ایک تہائی رقبے یعنی 470 مربع میل علاقے پر تحریک طالبان کا قبضہ ہے۔ جہاں کم از کم 25 لاکھ نفوس آباد ہیں،ان علاقوں کے شہریوں کے حوالے سے اخبار کہتا ہے، کہ پچھلے ایک برس کے دوران تحریک طالبان پاکستان کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی ہے۔
پولیس عہدہ داروں کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ کراچی میں عرصہٗ دراز سے موجود طالبان کے جنوبی وزیرستان کے بڑے محسود قبیلے کے علاوہ اب مُہمند قبائلی علاقوں کا طالبان دھڑہ بھی شہر میں پھیلتا جا رہا ہے، لیاری جیسے غیر پشتون علاقوں میں بھی اسلامی انتہا پسندوں کا اثرو نفوذ ہے۔ جہاں طالبان کے اتحادی لشکر جھنگوی کا بھی اڈّہ ہے۔
اخبار کی تحقیق کے مطابق کراچی کی مجموعی 178 یونین کونسلوں میں سے 33 پر طالبان کا تصرّف ہے۔
لکھے پڑے لوگ بھی اُن کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں، جن میں غیر پشتون بھی شامل ہیں، اور وُہ کراچی سے باہر علاقوں بشمول ہب اور جام شورو کے علاقوں میں پھیل رہے ہیں،ایک تاجر کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ اپنے زیر انتظام علاقوں میں طالبان عام شہریوں اور تاجروں پر ٹیکس لگا رہے ہیں،انہوں نے جھگڑے چُکانے کے لیے اپنی عدالتیں بھی قائم کر رکھی ہیں،جو زمین کی ملکیت پر تنازعوں کا فیْصلہ کرتی ہیں، یا یہ کہ پاور لائینوں سے کتنی بجلی چوری کی جا سکتی ہے، طالبان اپنی برادری سے روپیہ بھی اینٹھتے ہیں، 40 ہزار روپے کی آمدنی پر طالبان ایک ہزار وصول کرتے ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ایک سرکردہ کارکُن بشیر جان نے اخبار کو بتایا کہ طالبان کا کراچی پر مکمل تصرّف ہے اور وُہ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔