صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت سابق صدر براک اوباما دور کی ان گائیڈ لائنز کو منسوخ کر دیا گیا جس میں امریکی قونصل خانوں میں ویزوں کی پراسسنگ کے وقت کا تعین کیا گیا تھا۔
اس حکم نامے کے بعد امریکہ کے وزٹ ویزے کے درخواست گذاروں کو پہلے سے زیادہ انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
نئے حکم نامے میں سن 2012 کے حکم کو منسوخ کر دیا گیا ہے جس میں اسٹوڈنٹ اور وزیٹرویزے سمیت نان امیگرنٹ ویزے کو تیزی سے پراسس کرنے کا کہا گیا تھا۔
سابق صدر براک أوباما کی جانب سے محکمہ خارجہ کو جاری کیے جانے والے حکم میں کہا گیا تھا کہ وہ نان امیگرنٹ ویزے کی درخواست وصول ہونے کے تین ہفتوں کے اندر 80 فی صد درخواست گذاروں کے انٹرویو یقینی بنائیں۔
نیا حکم نامہ بعض امیگریشن پالیسیوں اور ان کے إطلاق سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کی کئی مہینوں پر مبنی ان کوششوں کے بعد سامنے آیا ہے جن کے متعلق عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد درخواست گذاروں کی کڑی جانچ پڑتال ہے۔
حال ہی میں امریکی انتظامیہ نے ویزے کی درخواست کے پراسس میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پرکھ اور 15 سال کی بائیوگرافک معلومات کو بھی شامل کر دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قونصل کے عہدے دار درخواست گذار سے فیس بک اکاؤنٹ کے بارے میں سوال کر سکتے ہیں اور اس سے ان تمام مقامات کی تفصیلی فہرست طلب کرسکتے ہیں جہاں اس نے 15 سال کے عرصے میں سفر کیا ہو۔
صدر ٹرمپ نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر مارچ میں چھ ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی عائد کی تھی جن میں ایران، لیبیا، صومالیہ، شام، سوڈان اور یمن شامل تھے۔ اس ایکزیکٹو آرڈر کے خلاف مقدمات کے بعد عدالتوں نے اس کے کئی حصوں پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
صدارتی حکم کے خلاف مقدمہ کرنے والوں کا کہنا تھا کہ حکم نامے میں صرف مسلم اکثریتی ملکوں کو ہدف بنایا گیا ہے جو امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے عدالتی فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔