امریکہ میں نومبر کا مہینہ صدارتی انتخابات کا مہینہ ہے۔ اور ہر چار برس بعد ہونے والے یہ انتخابات امریکیوں کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر اس مرتبہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے انتخابی ریلیاں منعقد نہیں ہو پائی ہیں اور انتخابی سرگرمیوں پر ایک سکوت سا چھایا ہے۔
اس سکوت میں ہفتے کے روز ایک زبردست ارتعاش اس وقت پیدا ہوا جب سابق صدر براک اوباما نے اسکول اور کالجوں سے کامیاب ہونے والے ہزاروں طلبہ سے ورچوئل خطاب کیا اور نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ انہیں باور کروایا کہ کیسے ملک کی موجودہ قیادت ایک عالمی وبا سے بخوبی نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔
براک اومابا نے ایچ بی سی یو یا ہسٹوریکلی بلیک کالج اینڈ یونیورسٹیز کے 2020 میں کامیاب ہونے والے طلبا سے خطاب میں انہیں یہ بھی احساس دلایا کہ مستقبل کی قیادت ان کے ہاتھوں میں ہو سکتی ہے اگر وہ درپیش چیلنجز سے خوفزدہ نہ ہوں۔
سابق امریکی صدر کے سیاہ فام طلبہ کی اکثریت سے اس خطاب نے امریکہ بھر میں ایک ہلچل سی مچا دی ہے۔ انہوں نے کرونا وائرس کی وبا سے موثر طور پر نمٹنے میں ناکامی پر ٹرمپ انتظامیہ پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔
جس کے جواب میں امریکی محکمہ صحت کے حکام نے ان کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ماہ کے اندر کرونا کی وبا پر قابو پا لیا گیا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو صورت حال زیادہ خراب ہو سکتی تھی۔
صدر ٹرمپ نے صدر اوباما کی تنقیدکے جواب میں انہیں ایک نااہل صدر قرار دیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں کے حامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوباما کے اس خطاب کی سیاسی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
عرفان ملک امریکی ریاست میری لینڈ کی ہارورڈ کاؤنٹی میں مسلم کونسل کے صدر رہ چکے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اوباما نے جن طلبہ سے خطاب کیا ان میں ایک تو وہ ہیں جو اسکول سے گریجویٹ ہوتے ہوئے اٹھارہ برس کے ہو جائیں گے اور پہلی دفعہ ووٹ دیں گے اور دوسرے وہ جو کالج سے گریجویٹ ہو کر ملازمتیں تلاش کریں گے۔ چنانچہ دونوں کیلئے مستقبل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
ایم جے خان امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں ایک ممتاز ریپبلکن اور سٹی کونسل کے رکن رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی مخالف کا کوئی اقدام اثر رکھتا دکھائی دے تو سیاسی سطح پر فکر تو پیدا ہوتی ہے اور صدر اوباما اگر جو بائیڈن کی حمایت میں مہم چلاتے ہیں تو ریپبلکن پارٹی کو فکر مند ہونا چاہیئے مگر صدر ٹرمپ کے حامی ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے سوا کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔
صدر اوباما کے خطاب میں مخاطب وہ کمیونٹی تھی جو اکثر ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔ امریکہ کی سیاہ فام آبادی نسبتاً مسائل اور امتیازی سلوک کا شکار نظر آتی ہے مگر ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے ان کی حمایت واضح ہے۔ تاہم ایم جے خان کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی یہ سمجھ رہی ہے کہ افریقی امریکیوں کا ووٹ ان کیلئے پکا ہے اور ریپبلکن پارٹی ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی تو ایسا نہ ہو یہ کمیونٹی ووٹ سے بے نیاز ہو جائے اور پھر نتائج وہ نہ رہیں جو دونوں پارٹیاں توقع کر رہی ہیں۔
عرفان ملک کا بھی کہنا ہے کہ جو بائیڈن کیلئے اوباما کی حمایت اہم ہے کیونکہ وہ افریقی امریکیوں کے ووٹ حاصل کیے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔
کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے صدر ٹرمپ کے اقدامات پر تنقید ہوئی تو انہوں نے جھٹ اس کا الزام گذشتہ حکومت کو دیا جس نے ان کے بقول ایسی ہنگامی صورتِ حال کیلئے کچھ نہیں کیا اور انہیں کے الفاظ میں" شیلف خالی ملے"۔
عرفان ملک کہتے ہیں کہ اگر ایک دو ماہ کی بات ہو تو گذشتہ حکومت کو الزام دیا جا سکتا ہے مگر صدر ٹرمپ تو تین سال سے زیادہ عرصے سے حکمران ہیں، پھر وہ اوباما حکومت کو کیسے الزام دے سکتے ہیں۔
ایم جے خان کہتے ہیں کہ قصور کسی ایک حکومت کا نہیں ہے بلکہ ان کے خیال میں امریکہ میں گزشتہ پچاس برس کی حکومتوں نے ایسی کسی ہنگامی حالت کیلئے کوئی خاص تیاری نہیں کی۔ اور ان کے خیال میں امریکہ کے زیریں ڈھانچے پر بھی توجہ نہیں رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں الیکشن میں ووٹ کی اہمیت امریکی عوام کو سمجھنا ہو گی۔
اس سے پہلے اوباما تقریباً خاموش تھے اور صدر ٹرمپ کی نکتہ چینی کا بھی جواب نہیں دے رہے تھے۔ مگر اب جب کہ جو بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار ٹھہرائے جانے والے ہیں، اوباما نے ایک مرتبہ پھر سیاسی افق پر نمودار ہو کر ایک سکوت توڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور ہفتے کے روز ان کی دو تقریروں کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔
صدر ٹرمپ اب بھی اوباما کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور ٹوئٹر پر انہوں نے ایک لفظ لکھا،"اوباما گیٹ" اور جواب میں اوباما نے بھی ایک لفظ لکھا،"ووٹ"۔
کرونا وائرس کی وبا میں انتخابات کی بات اگرچہ بہت دور کی بات لگتی ہے مگر اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وائرس امریکی عوام کو ووٹ ڈالنے کی مہلت دے گا یا نہیں۔