امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار سائمن ہنشا نے گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجریں کی میزبانی پر پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
محکمۂ خارجہ کے بیورو آف پاپولیشن، رفیوجیز اینڈ مائیگریشن میں پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری سائمن ہنشا امریکی حکومت کی طرف سے افغان مہاجروں اور ان کی میزبان آبادیوں کو انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کی نگرانی کرتے ہیں۔
اُنھوں نے رواں ہفتے ہی پاکستان کا اپنا تین روزہ دورہ مکمل کیا۔
امریکی سفارت خانے سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق سائمن ہنشا
نے پاکستانی عوام اور حکومت کی فراخدلی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ افغان مہاجرین اور میزبان آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں پاکستان کی مدد کے لیے پر عزم ہے۔‘‘
اپنے دورے میں سائمن ہنشا نے راولپنڈی اور ٹیکسلا میں پاکستانی اور افغان مہاجر بچوں کے لیے قائم سکولوں کا دورہ کیا۔ یہ اسکول امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ 89 لاکھ ڈالر کی اعانت سے قائم کیے گئے۔
ہنشا نے افغان مہاجریں کی رٖضاکارانہ واپسی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی علاقائی حکمتِ عملی میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ اس حکمتِ عملی پر پاکستان، افغانستان اور بین الاقوامی برادری مل کر کام کر رہے ہیں۔
افغانستان میں لڑائی سے متاثرہ خاندانوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے۔ 2014ء میں محکمہ خارجہ کے بیورو آف پاپولیشن، ریفیوجیز اینڈ مائیگریشن نے افغانستان میں بے گھر افراد اور تمام علاقے میں افغان مہاجرین اور رٖضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جانے والوں کے لیے دس کروڑ ستر لاکھ ڈالر فراہم کیے۔ یہ امداد اقوامِ متحدہ سمیت ان بین الاقوامی تنظیموں کو دی جاتی ہے جو افغان مہاجرین اور میزبان آبادیوں کی بحالی کے لیے کام کرتی ہیں۔
پاکستان میں لگ بھگ 16 لاکھ اندارج شدہ افغان پناہ گزین مقیم ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں افغان پناہ گزین غیرقانونی طور پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔
ان افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور اُنھیں درپیش مسائل کے بارے میں گزشتہ ماہ اسلام آباد میں سہ فریقی اجلاس ہوا جس میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘، افغانستان اور پاکستان کے عہدیداروں نے شرکت کی۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں مقیم تمام غیر اندارج شدہ افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن یعنی اُن کے کوائف کا اندارج کیا جائے گا۔
پاکستانی عہدیدار کہتے رہے ہیں کہ وہ افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی چاہتے ہیں۔