|
ویب ڈیسک _ اسرائیل اور ایران کی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ نظر کئی مغربی حکومتوں نے اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔
امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے اپنے شہریوں کے لیے لبنان میں سفری انتباہات جاری کیے ہیں۔
ان ملکوں کی حکومتوں نے اپنے شہریوں سے فوری طور پر لبنان چھوڑنے کو کہا ہے اور تنازع بڑھنے کے خطرے کے باعث وہاں سفر سے گریز کی ہدایت کی ہے۔
یہ انتباہات ایسے موقع پر جاری ہوئے ہیں جب اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے گولان کی پہاڑی پر ہفتے کو ایک حملے میں بچوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
نیتن یاہو نے پیر کو حملے کے مقام کا دورہ کرتے ہوئے 'سخت جواب' دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
دوسری جانب لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے کہا ہے کہ وہ ہفتے کو ہونے والے راکٹ حملے میں ملوث نہیں ہے۔
بیروت میں امریکی سفارت خانے میں تعینات قونصلر امور کی نائب سیکریٹری رینا بِٹر نے سماجی رابطے کی سائٹ 'ایکس' پر ایک بیان میں لبنان میں موجود امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بحران شروع ہونے سے پہلے وہاں سے نکل جائیں۔
رینا بٹر نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ باقاعدگی سے طے شدہ سفر ہمیشہ بہترین آپشن ہوتا ہے جب کہ لبنان میں مقامی مواصلات اور نقل و حمل کا بنیادی ڈھانچہ برقرار ہے اور معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔
جرمنی کی فضائی کمپنی لفتھانسا، سوئس انٹرنیشنل ایئر لائنز، ایئر فرانس اور ترکش ایئر لائنز سمیت کئی فضائی کمپنیوں نے لبنان میں سلامتی کی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے بیروت جانے والی پروازیں معطل کر دی ہیں۔
لبنان کے نگراں وزیرِ خارجہ عبداللہ بو حبیب نے 'سی این این' چینل کو بتایا کہ لبنانی حکومت حزب اللہ کو لگام ڈالنے کی زیادہ قدرت نہیں رکھتی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کے رابطوں کے راستے کھلے ہیں۔
واضح رہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل نے گزشتہ سال غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے سرحد پر کئی جھڑپیں کی ہیں۔
حزب اللہ نے کہا ہے کہ پیر کی صبح ایک اسرائیلی ڈرون حملے میں اس کے دو ارکان ہلاک ہوئے ہیں۔
تجزیہ کار دانیا کولیلت خطیب کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ اسرائیل لبنان میں کس مقام پر کارروائی کرے گا۔
کولیت خطیب بیروت میں قائم 'ریسرچ سینٹر فار کوآپریشن اینڈ پیس بلڈنگ' کی صدر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خطیب نے کہا کہ دونوں فریق جنگ نہیں چاہتے لیکن جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔
امریکہ کے خصوصی ایلچی اموس ہوچسٹین نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ غلطی سے یا حادثاتی طور پر شہریوں کو نقصان کی صورت میں دونوں میں کوئی بھی ملک اس طریقے سے جوابی کارروائی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے جو جنگ کی طرف لے جائے۔
انہوں نے کہا کہ بیروت کو نشانہ بنانا لڑائی میں بڑے اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
فورم