جنوبی لبنان کی سرحد کے قریب ویران دیہاتوں اور کمیونٹیز میں، اسرائیلی فوجی اور حزب اللہ کے جنگجو مہینوں سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ اور ایک ایسے وقت میں جب وہ منتظر ہیں کہ آیا کوئی مکمل جنگ ہو گی اور لڑائی میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے خود کو مختلف انداز میں ڈھال رہے ہیں۔
گزشتہ اکتوبر میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے، اس تعطل کے درمیان، جو محض مکمل جنگ نہیں ہے۔دونوں فریق روزانہ راکٹوں، توپ خانے، میزائل فائر اور فضائی حملوں کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔
سرحد کے دونوں طرف سے لاکھوں افراد کا انخلا ہوا ہے۔ اس امید کو ،کہ بچے ستمبر میں اسکولوں میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے لیے واپس آسکیں گے، اسرائیل کے وزیر تعلیم یوو کیش کے منگل کے اس اعلان سے دھچکا لگ رہا ہے کہ شائد حالات اس کی اجازت نہ دیں.
ایک اسرائیلی افسر لیفٹیننٹ کرنل دوتان نے، جو محض اپنا پہلا نام استعمال کرنا چاہتے ہیں کہا کہ،"گزشتہ نو مہینوں سے جنگ تقریباً ایک جیسی ہے۔" "سال بھر میں، تمام نو مہینوں میں، ہم نے اچھے دن دیکھے ہیں جب ہم نے حزب اللہ کو نشانہ بنایا ہے اور برے دن جب انہوں نے ہمیں نشانہ بنایا۔"
جیسے جیسے موسم گرما اپنے عروج پر پہنچ رہا ہے، آسمان پر ڈرونز اور راکٹوں کے دھوئیں کےبادل روزمرہ کے نظارے بن گئے ہیں، سرحد کے ساتھ گھنے جنگل والی پہاڑیوں پر میزائل فائر سے مسلسل آگ لگ رہی ہے۔
اسرائیلی حملوں میں لبنان میں حزب اللہ کے تقریباً 350 جنگجو اور 100 سے زیادہ شہری مارے گئے ہیں، جن میں ڈاکٹر، بچے اور صحافی شامل ہیں، جبکہ دوسری جانب 10 اسرائیلی شہری، ایک غیر ملکی زرعی کارکن اور 20 اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں۔
اس کے باوجود جب سرحد پار فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیلی افواج لبنان میں ممکنہ حملے کے لیے ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں جس سے ایک ایسی وسیع علاقائی جنگ کا خطرہ ڈرامائی طور پر بڑھ جائے گا، جو ممکنہ طور پر ایران اور امریکہ کو بھی شامل کرلے۔
اس خطرے کی نشاندہی ہفتے کے آخر میں ہوئی جب یمن میں مقیم حوثی ملیشیا نے، جسے حزب اللہ کی طرح ایران کی حمایت حاصل ہے، تل ابیب پر ایک ڈرون فائر کیا جہاں اس نے ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کو نشانہ بنایا جس میں ایک شخص ہلاک ہوا ۔ اس کے اگلے دن اسرائیل نے جوابی حملہ کیا۔
لیفٹیننٹ کرنل ڈوٹن نے، جن کا گھر ایلون نامی علاقے میں ہے ، جہاں 1,100 کی آبادی میں سے اب صرف 150 کسان اور سیکورٹی گارڈ رہ گئے ہیں، کہاکہ ایک مسلسل جاری حکمت عملی کی جنگ میں، دونوں فریق مہینوں سے ایک دوسرے کو آزما رہے ہیں،
"اس جنگ نے ہمیں صبر سکھایا ہے،" ڈوٹن نے کہا۔ "مشرق وسطی میں، آپ کو صبر کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ایرانی ڈرونز کا بڑھتا ہوا استعمال دیکھا ہے، جو اکثر یوکرین میں دیکھا جاتا ہے، اسی طرح روسی ساختہ کورنیٹ اینٹی ٹینک میزائل جو ایسے وقت میں تیزی سے گھروں کو نشانہ بنا رہے تھے جب اسرائیلی ٹینک فورسز نے جوابی حکمت عملی اختیار کی ہے۔
ڈوٹن نے کہا، "حزب اللہ ایک تیزی سے سیکھنے والی تنظیم ہے اور وہ سمجھتے تھے کہ UAVs (بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیاں) آئندہ اہم ہیں اور اس لیے انہوں نے UAVs خریدیں اور تربیت حاصل کی۔"
اسرائیل نےاس کا جواب اپنے آئرن ڈوم ایئر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے اور حزب اللہ کے تجربہ کار کمانڈروں کو نشانہ بنا کر اس کے تنظیمی ڈھانچے کو کمزور کرنے پر اپنی کارروائیاں مرکوز کرکے دیا۔
اس کی ایک مثال ایلیٹ رضوان فورسز یونٹ میں فیلڈ کمانڈر علی جعفر ماتوک ہیں جنہیں گزشتہ ہفتے نشانہ بنایا گیا تھا۔
"تو یہ ہمیں ملنے والاایک اور کمزور نکتہ ہے۔۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر انہیں تلاش کرکے انہیں نشانہ بناتے ہیں،" ڈوٹن نے کہا۔
اس کے باوجود، جیسے جیسے مہینے گزر رہے ہیں، جنگی ہتھکنڈوں اور تیزی سے جارحانہ کارروائیوں کے نظریے کے تحت تربیت پانے والے اسرائیلی فوجیوں کے لیے انتظار آسان نہیں رہا۔
ڈوٹن نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب آپ اپنے دفاع پر ہوتے ہیں تو آپ دشمن کو شکست نہیں دے سکتے۔ ہمیں کوئی توقع نہیں ہے، اس لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ صبر کا کھیل ہے۔
یہ رپورٹ رائٹرز کی معلومات پر مبنی ہے۔
فورم