پاکستان کے لیے امریکہ کی فوجی امداد میں تقریباً 80کروڑ ڈالر کی معطلی کے نتائج کیا ہوں گے، جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور مڈل ایسٹ انٹی ٹیوٹ میں اسکالر اِن ریزیڈنس، ڈاکٹر مارون وائن بام نے بتایا کہ یہ فیصلہ امریکی انتظامیہ کے مؤقف میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
اتوارکو ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ ابھی تک یہ مقصد سامنے تھا کہ پاکستان کو سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی سے بہتر انداز سے نمٹنے کے لیے ترغیبات دی جائیں۔ لیکن، اب اِس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی فوج تک امداد نہ پہنچے، کیونکہ امریکہ کو اِس سے مایوسی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر وائن بام کے بقول، امریکہ کے لیے یہ فیصلہ ایک داؤ ہے جِس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔’پاکستان کی فوج، بلکہ پاکستانی عوام میں بھی عام خیال یہی ہے کہ ہمیں امریکی فوج یا امداد کی کوئی پرواہ نہیں۔ اِس لیے یہ سمجھنا کہ پاکستان کی فوجی قیادت یا حکومت اپنے رویے میں تبدیلی آتے ہوئے زیادہ تعاون کرے گی، یہ ایک دور از کار امکان ہے‘۔
ڈاکٹر وائن بام کے خیال میں پاک امریکہ تعلقات میں فوری بہتری کا کوئی امکان نہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے اِس فیصلے کے بعد ، مستقبلِ قریب میں پاکستان اور امریکہ کےتعلقات میں بہتری کا کوئی حل ملے، اورعسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے تعاون کی کوئی صورت نکل پائے۔
’یہ ایک بڑے جوئے کی طرح ہے ،جِس کا مقصد غالباًپاکستان کی پوزیشن کو تبدیل کرنا ہے۔ میرے نزدیک یہ پاکستانی سیاسی منشا یا مفاد میں نہیں کہ وہ امریکہ کے کہنے کے عین مطابق چلے۔ اِ س لیے میرا خیال ہے کہ پاکستان کی پالیسی میں فوری تبدیلی نہیں ہوگی اور دونوں ملکوں کے درمیان مزید کشیدگی اور کھچاؤ کا امکان رہے گا۔‘
’یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ میں ساؤتھ ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹرمعید یوسف یہ نہیں سمجھتے کہ اِس معطلی سے پاکستان زیادہ متاثر ہوگا۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ پہلے یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ 800ملین ڈالر کون سی امداد ہے جِس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ، اِس 800ملین ڈالر میں بیشتر امداد وہ ہے جو پاکستان میں موجود امریکی ٹرینرز پر اور جوسازو سامان پاکستان میں موجود تھا اُس پرخرچ آتے تھے، ’جوپیسا وہاں پہ لگنا تھا اور وہ اب وہاں نہیں لگ رہا، کیونکہ پاکستان نے اُن ٹرینرز کو واپس بھجوا دیا ہے، اور جِن امریکی اہل کاروں کو وہاں تعینات ہونا تھا سازو سامان کی دیکھ بھال کے لیے، اُن کو پاکستان نے منع کردیا ہے، جو دعوت دی تھی آنے کے لیے۔‘
لہٰذا، معید یوسف کے بقول، رُوکی جانے والی امداد میں سے بہت سی امداد تو وہی ہے جو پاکستان کی طرف سے قدم اُٹھائے جانے کی وجہ سے رُکی ہے۔ ’اُس میں کچھ حصہ وہ ہے جو اتحاد اعانتی فند کا تھا جِس کا پہلے ہی واضح تھا کہ شاید امریکہ وہ دینے پر آمادہ نہ ہو اُس میں کچھ بِلنگ کے اشور تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ امداد پوری طرح رُک گئی اور سکیورٹی تعلقات میں کوئی خلل آئے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ ضرور ہے کہ ایک تناؤ توہے ہی اور ایک پریشر ٹیکنیک کےطور پربھی ممالک ہمیشہ ایسی چیزیں استعمال کرتے رہے ہیں، لیکن، مجھے نظر آتا ہے کہ تعلق میں ایک مکمل خلل آیا ہے۔
مستقبلِ قریب میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی، معید یوسف کے خیال میں ’آپ کرائسز ٹو کرائسز چلیں گے۔ تعلقات کشیدہ ہوں گے پھر کچھ بہتری آپ کو نظر آئے گی، پھر کشیدہ ہو جائیں گے۔‘
اُن کے خیال میں، بنیادی طورپر افغانستان کے مسئلے پر دونوں ممالک کی جو رائے ہے وہ مختلف ہے۔ ’اُس کی وجہ سے، کشیدگی چلتی رہے گی، لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضروری ہے۔ حقیقاً ضرورت ہے اور اِس لیے یہ تعلق آگے بھی بڑھے گا اور کشیدہ بھی رہے گا۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں گی‘۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: