امریکی خارجہ پالیسی کو گذشہ برس وکی لیکس کی جانب سے امریکی سفارت کاروں کے خفیہ مراسلوں کی اشاعت کے بعد شدید دھچکا لگا۔ جس پر امریکی حکومت کو شرمندگی کا اظہار بھی کرنا پڑاتھا۔
ماہرین 2011ءکو امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک مشکل سال قرار دے رہے ہیں ۔انکے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں گذشتہ نو برسوں سے جاری امریکی جنگ کے مطلوبہ نتائج سامنے نہ آنے اور پاکستان کے مشکل حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس نئے سال میں اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی کرے گا یا نہیں ۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں ہونے والے ایک مذاکرے میں اسی موضوع پر گفتگو کی گئی۔
تھینک ٹینک کےجنوبی ایشائی امور کے ماہر اسٹیفن کوہن پاکستان کے لیے امریکی امداد کے جاری رکھنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ میرے نزدیک ہمیں پاکستان کی مدد جاری رکھنی چاہیئے۔ ہمیں پاکستان کو معاشی امداددینی چاہیے۔ اور افغانستان کے حالات پر پاکستان سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر بات کرنی چاہیے۔
ان کا کہناتھا کہ پاکستان کی اندرونی سلامتی ، تعلیمی نظام، زراعت اور سیلاب زدگان کی امداد کے سلسلے میں امریکہ امداد جاری رہنی چاہیے۔
مگر امریکہ میں ایک طبقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کی جنگ میں امریکہ کی اس طرح سے مدد نہیں کررہا جیسا کہ اسے کرنی چاہیئے۔ اور اسی وجہ سے امریکہ افغان جنگ میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے قاصر ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی امور کے ماہر رابرٹ کیگن کے نزدیک امریکہ کو اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان پر افغان جنگ کے حوالے سے کتنا انحصار کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بہت پیچیدہ صورتحال ہے۔ افغانستان میں ہماری کوششیں جاری رہیں گی اور میرا نہیں خیال کہ وہاں کی کامیابیاں مکمل طور پر پاکستان کے حالات سے مشروط ہیں ۔ افغانستان جنگ میں پاکستان ہماری اس طرح سے مدد نہیں کر رہا جیسا کہ ہم چاہ رہے ہیں گو کہ ہم اس کےباوجود کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ مگرمستقبل کے لیے ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان پر کتنا انحصار کرنا چاہتے ہیں۔
مگر کیا واقعی امریکہ افغانستان جنگ کے حوالے سے پاکستان پر انحصار کم کرسکتا ہے؟ واشنگٹن میں تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس سےمنسلک جنوبی ایشیائی امور کے ماہر معید یوسف 2011 ءکو ایک مشکل سال قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مجھے بہت مشکل سال نظر آ رہا ہے پاکستان اور امریکہ کے لیے۔ دیکھئے ایک یہ اینڈ گیم کی بات چل پڑی ہے۔ امریکہ نے وہاں سے میں فوجیں نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آتی جائے گی ، پاکستان پر طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کے لیےدباؤ بڑھتا جائے گا ۔
مگر معید یوسف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو ملنے والی امریکی امدادپاکستانی فوج کی سوچ میں تبدیلی نہیں لا سکے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک تو پاکستان کو یہ معلوم ہے کہ اسے جو معاشی امداد مل رہی ہے وہ ملک کے لیے بہت ضروری ہے۔ لیکن پاکستانی فوج اس امداد کی وجہ سے کسی بھی صورت اپنی حکمت عملی کا نظریہ تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہوگی۔ یہ الگ بحث ہے کہ آیا ان کا نظریہ درست ہے بھی یا نہیں۔
ماہرین کی نظر میں اس وقت پاکستان کو اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کی اشد ضرورت کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج اور سیاست کا افغان جنگ کے موضوع پر کسی ایک نقطے پر متفق ہونا ضروری ہے۔
واشنگٹن میں موجود ماہرین کا کہناہے کہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں نو سال گزر جانے کےباوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے اور ملک کے اندر اس کے خلاف بڑھتی تنقید ، امریکی انتظامیہ کو وافغانستان اور پاکستان کے حوالے سے 2011ء میں چند مشکل فیصلے کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔